جسٹس مارکنڈے کاٹجو کے تبصرے

   

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
جسٹس مارکنڈے کاٹجو کے تبصرے
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو ہمیشہ ہی اپنے بے لاگ تبصروں اور ریمارکس کیلئے جانے جاتے ہیں۔ انہیں اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ حق بیان کرتے ہوئے کس کی مخالفت ہو رہی ہے اور کس کی تائید ہو رہی ہے ۔ وہ حق بات کہنے میںیقین رکھتے ہیں اور انصاف والی سوچ کے حامل ہیں۔ انہوں نے اکثر و بیشتر حکومت وقت کو بھی تنقیدوں کا نشانہ بنایا ہے اور اس کی پالیسیوں اوراقدامات پر کئی مرتبہ سوال بھی کئے ہیں۔ وہ حکومت کے ساتھ اپوزیشن کو بھی بخشنے تیار نہیں ہوتے‘ وہ جہاں حکومتوں کی پالیسیوں کو نشانہ بناتے ہیں وہیں اپوزیشن کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے میں بھی پیچھے نہیں رہتے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی بھی حکومتوں کے پسندیدہ نہیں رہے لیکن انہیںاس کی کوئی فکر بھی نہیں رہی ۔ جسٹس کاٹجو نے اب کچھ ریمارکس ہندوستان کے داخلی حالات پر کئے ہیں اور حکومت کی دکھتی رگ پر انہوں نے ہاتھ رکھا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت کے پاس ملک کے معاشی بحران کو حل کرنے کا کوئی راستہ نہیں رہ گیا ہے اوراسی وجہ سے ملک میں نفرت کا ماحول گرم کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کیلئے ہندو ۔ مسلم کا کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ انہوں نے ایک ریمارک سب سے اہم کیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا وہی حال ہوگا جو جرمنی میں یہودیوں کا ہوا تھا ۔ جرمنی مے یہودیوں کا جو حال ہوا تھا اس تعلق سے یہاں کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا واقعی ہندوستان میں حالات اس رخ پر جا رہے ہیں کہ یہاں مسلمانوں کا جینا محال کردیا گیا ہے ؟۔ جو حالات فی الحال دکھائی دیتے ہیں یقینی طور پر مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کا عمل شدید ہوگیا ہے ۔ انہیں پاکستان بھیجنے کی بات کی جا رہی ہے ۔ ہجومی تشدد کے نام پر انہیں ہلاک کیا جا رہا ہے ۔ ان کو مقدمات میں پھانستے ہوئے سماج میں رسواء کرنے کی مہم بھی تیز ہوگئی ہے ۔ بیف کے نام پر مسلمانوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے تو متاثرین ہی کو جانوروں کی اسمگلنگ کے الزام میں قید کیا جا رہا ہے جبکہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والوں کو سماج میں عزت و احترام سے نوازا جار ہا ہے ۔
جسٹس کاٹجو سماج کے ایک ذمہ دار شہری ہیں۔ وہ سپریم کورٹ کے سابق جج رہے ہیں۔ وہ حالات اور تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ملک کے تئیں فکرمندی انہیں لاحق ہے ۔ وہ ملک اور سماج میں انصاف چاہتے ہیں اور انہوں نے حقیقت کو منظر عام پر لانے کی اپنے ریمارکس کے ذریعہ کوشش کی ہے ۔ آج ہندوستان میں جو معاشی بحران کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اس کا دبے الفاظ میں یا بالواسطہ طور پر خود سرکاری حلقے بھی اعتراف کر رہے ہیں لیکن حکومت واضح طور پر اپنی ناکامی یا بحران کی کیفیت کا اقبال نہیں کر رہی ہے ۔ معیشت کا ہر شعبہ پریشانی کا شکار ہے ۔ ملک میں بینکوں کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ وہ ہزاروں کروڑ روپئے جو قرض کارپوریٹس کو دے چکے ہیں وہ واپس نہیں آ رہے ہیں اور بینکس عوام کے کھاتوں میں رکھا ہوا خود ان کا پیسہ واپس کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایک طرح سے عوام کا پیسہ کارپوریٹس کے خزانوںمیں چلا گیا ہے اور حکومت اور بینکس بے بس ہوگئے ہیں۔ تقریبا ہر گذرتے دن کے ساتھ ایک نئے اسکام اور ایک نئی مشکل کا انکشاف ہو رہا ہے لیکن حکومت اس پر کچھ بھی کرنے کے موقف میں نظر نہیں آتی ۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ ملازمتوں کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ نئے روزگار پیدا ہو نہیں رہے ہیں اور جو موجودہ ملازمتیں ہیں وہ ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ ہر شعبہ میں کئی ہزار ملازمتوں کی تخفیف کردی گئی ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے یا پھر وہ کارپوریٹس یا معاشی بحران کے آگے بے بس ہوگئی ہے ۔
یہی وہ صورتحال ہے جو ہندو مسلم کے امتیاز کے بغیر ہر ہندوستانی کو متاثر کرتی ہے اور کر رہی ہے ۔ یہیں سے حکومت کیلئے یہ پریشانی لاحق ہوسکتی ہے کہ عوام ہندو مسلم کی تخصیص کئے بغیر حکومت سے اس کی کارکردگی اور بحران پر سوال کرنے لگیں۔ یہی بات حکومت نہیںچاہتی اور اس کیلئے مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنایا جا رہا ہے ۔ ہر معاملہ میں انہیںسماج کی نظروں میں رسواء کرنے کی مذموم مہم شروع کردی گئی ہے ۔ مسلمانوں کو عملا دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ ہر گوشے سے ان کے خلاف زہر افشانی کی جا رہی ہے ۔ تاہم حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فرقہ پرستی کا سہارا زیادہ دن چلنے والا نہیںہے ۔اس زہر آلود کھیل سے کسی کے گھر کے چولہے نہیںجلتے اور نہ کسی کو روزگارملتا ہے ۔ جب معاشی بحران کی صورتحال شدت اختیار کر جائیگی تو حکومت فرقہ پرستی کا سہارا لے کر عوامی غضب سے بچ نہیں پائے گی ۔