بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی جوینائل جسٹس کمیٹی سے کشمیر میں نابالغ بچوں کی مبینہ گرفتاری سے متعلق تازہ رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔
سپریم کورٹ نے آج جوینائل جسٹس کمیٹی سے آئندہ 3 دسمبر کو رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔سپریم کورٹ میں بچوں کے حقوق کے لیے جہدوجد کرنے والی کارکن اناکشی گنگولی کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر سماعت ہوئی۔
ساؤتھ ایشین وائر نیوز سروس کے مطابق اناکشی گنگولی نے درخواست میں دعوی کیا ہے کہ 5 اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370 کو ختم کرنے کے بعد سے وادی میں کئی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔
مرکزی حکومت کے وکیل تشار مہتا نے اس معاملے کی سماعت اگلے ہفتے کرنے کی درخواست کی کیونکہ ان کا کسی اور عدالت میں معاملہ ہے۔سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کردی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ‘اس طرح کے اہم مقدمے کی سماعت کو ملتوی کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔’تشار مہتا نے بتایا کہ درخواست گزار کی جانب سے سپریم کورٹ میں غلط بات پیش کی گئی ہے کہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کام نہیں کر رہی ۔
جسٹس رمنا نے کہا کہ وادی کشمیر میں پابندیوں کے تین ماہ مکمل ہو گئے ہیں اور اس طرح کے اہم معاملات کو ملتوی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
نیوز ویب سائٹ القمر آن لائن کے مطابق اس سے قبل وادی کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد سماجی کارکنوں نے دعوی کیا کہ وادی میں حالات کافی خراب ہیں۔ لوگ فوج کے خوف کے سائے میں جی رہے ہیں اور متعدد وکلا کو بھی جیلوں میں بند کر دیا گیا ہے۔
سماجی کارکنان نے دعوی کیا تھا کہ ‘دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے 13 ہزار سے زائد بچے گمشدہ ہیں’۔
ساؤتھ ایشین وائر نیوز کے مطابق پلاننگ کمیشن کی سابق رکن اور معروف ماہر تعلیم سعیدہ حمید کی قیادت میں پانچ خواتین پر مشتمل ایک وفد نے 17 ستمبر سے 21 ستمبر تک کشمیر کے تین اضلاع کے 51 گاؤں کا دورہ کرنے کے بعد اپنی خصوصی رپورٹ جاری کی تھی۔