جمہوریت بہت سے قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے۔ جسٹس احمدی

,

   

سکیولرز م ہماری جمہوریت کی روح ہے۔ حامد انصاری

نئی دہلی۔سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر حامد انصاری نے کہاکہ سکیولر زم ہماری جمہوریت کی روح ہے‘ مگر اس کو سیاسی مقاصد ک تکمیل کے ذریعہ سمجھ لیاگیا جبکہ جمہوری نظام میں پروپگنڈے کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔

انہوں نے زوردے کر کہا کہ تعلیم ہی ہمارے بیشتر مسائک کا حل ہے اگر ہم تعلیم یافتہ نہ ہوسکے تو نہ ہم ائینی حقوق سے آگاہ ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ان کا مطالبہ کرسکتے ہیں‘

ہمیں تعلیم کے میدان میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اسکے لئے جو کچھ بھی کرسکتاہوں کہ‘ اس کے لئے ہمہ وقت تیارہوں۔موصوف گذشتہ شب ایوان غالب میں منعقدہ فخرالدین علی احمد میموریل لکچر کے موقع پر اظہار خیال کررہے تھے۔

ادارے غالب کی جانب سے ”گناہ اورگنہگار‘ غلطی کہاں ہوئی“کے عنوان پر منعقدہ پروگرام سے خطاب کے دوران ڈاکٹر حامد انصاری نے کہاکہ ہندستان کے جمہوری نظام کی بنیاد ایسے مضبوط ائین پر استوار ہے جو اکثریت او راقلیت میں تفریق نہیں کرتا۔

لہذا امن واتحاد کے ساتھ زندگی گذارنے کا سب کو برابر حق حاصل ہے لیکن ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں ہم تیسویں مقام پر پہنچ چکے ہیں۔یہ قابل تشویش ہے۔

انہوں نے اپنے پر مغز گفتگو میں مزیدکہاکہ انتخابی وعدوں کی عدم تکمیل او ربیروزگاری کی فکر نوجوانوں کے چہروں پر صاف محسوس کی جاسکتی ہے۔

مستقبل میں ہندوستان کے سامنے پانی‘ ماحولیات اورعوامی تحفظ ایک بڑے چیلنج کی شکل میں ابھرنے والا ہے اس طرف ہماری توجہہ نہ کے برابر ہے۔

مہمان ذی وقار کے طور پر شریک سابق لفٹنٹ گورنر نجیب جنگ نے اپنے خطاب میں کہاکہ جس عظیم ہستی کی یاد میں خطبہ منعقد ہورہا ہے وہ میرے لیے مثل راہ ہیں اور ان کے خانوادے سے میرا جذباتی رشتہ بھی ہے۔

آج کا یہ خطبہ بہت اہم ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا چاہئے۔ ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جو کچھ آج کل ہورہا ہے صرف وہی غلط ہے۔

ایک گناہ 1947میں بھی ہوا تھا جب ایک گھر میں رہنے والے سگے بھائیوں کی درمیان سرحد کی لکیر کھینچ دی گئی تھی۔

مسٹر جنگ نے مزید کہاکہ اگر ملک تقسیم نہ ہوا توتو تعلیم‘ سیاست‘ سائنس وٹکنالوجی‘ کھیل اوردوسرے شعبوں میں ہماری نمائندگی کا کیاعالم ہوتا۔

بدقسمتی یہ ہے کہ مولانا آزاد کے بعد ہمارے یکاں کوئی قائد پید ا نہیں ہوا۔ کاش کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یاعلی گڑھ کے طلبا میں سے کوئی اچھی قیادت سامنے ائے۔

جموں کشمیر ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس بدر دریز احمدنے کہاکہ یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ہندوستان صرف ایک جمہوری ملک نہیں ائینی جمہوری ملک ہے۔

نمبروں کی طاقت بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی سب کچھ نہیں اگر ایک شخص اپناائینی حق رکھتا ہے تو خواہ پورا ملک اس کے خلاف ہوجائے قانون اسے اس کا حق دلاکر رہے گا۔

انہوں نے فخر الدین علی احمد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ موصوف کی شخصیت میں میں نے ایک مخلص قائد کی شبہہ دیکھی ہے۔

وہ جدوجہد آزادی کے سلسلے میں چھ برس قید میں رہے آج کوئی ایساسیاسی رہنما نظر نہیں آتا جس نے ان جیسا خلوص ہو‘ وہ اگر میرے والد تھے تو آپ سب کے سرپرست بھی تھے۔

صدراتی خطبہ میں سابق چیف جسٹس اے ایم احمد ی نے کہاکہ ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولناچاہئے کہ جمہوریت بہت سی سرقربانیوں کاتقاضا کرتی ہے۔

ضروری ہے کہ تمام طبقات کو وہ حقوق ملنے چاہئیں جس کے وہ حقدار ہیں۔ قبل ازیں ادارے غالب کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے پھولوں کا گلدستہ پیش کرتے ہوئے مہمانوں کا استقبال کیاجبکہ نظامت کے فرائض ادارے غالب کے ڈائرکٹر سید رضا حیدر نے انجام دئے۔ تقریب میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ اہم شخصیات موجود تھیں۔