حجاب عورت کا محافظ 

   

ڈاکٹر عاصم ریشماں
معاشرے میں عورتوں کی عزت اور عفت و عصمت کی حفاظت ان کے رازداری کے حق کی ضمانت میں ہی مضمر ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خواتین کو رازداری کا حق عطا فرمایا اور معاشرے کو اس حق کے احترام کا پابند کیا۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے : ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہوا کرو جب تک (اس امر کی) اجازت نہ لے لو اور اہلِ خانہ پر سلام کہو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم ان باتوں سے نصیحت حاصل کرو O اور اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو ان میں داخل نہ ہو، جب تک تمہیں (اندر جانے کی) اجازت نہ ملے اور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو لوٹ جاؤ۔ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے خوب واقف ہے O‘‘ (النور: ۲۷۔۲۸) 
خود حضور نبی اکرم ﷺ کا یہی دستور تھا کہ جب آپ ﷺ کسی کے ہاں جاتے تو باہر سے السلام علیکم فرماتے، تاکہ صاحبِ خانہ کو معلوم ہو جائے اور وہ آپ کو اندر آنے کی اجازت دے دے۔ اگر پہلی بار کوئی جواب نہ ملتا تو دوسری مرتبہ السلام علیکم کہتے۔ اگر اب بھی کوئی جواب نہ ملتا تو تیسری مرتبہ پھر یہی کرتے اور اس کے بعد بھی جواب نہ ملنے پر واپس تشریف لے جاتے۔انہی معنوں میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے مجھ سے فرمایا : ’’جب تم میں سے کوئی شخص (کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے) تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اس کو اجازت نہ ملے تو چاہیے کہ واپس چلا آئے۔‘‘
عورتوں کے حق رازداری ، عصمت و عفت کی حفاظت کے لئے پردہ کے احکام آئے۔ قرآن حکیم میں خواتین کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی آرائش و زیبائش کو افشا نہ کرنے کی تعلیم دے کر اس پاکیزگی معاشرت کی بنیاد رکھی گئی جو خواتین کے حق رازداری و عصمت و عفت کی حفاظت کو یقینی بناسکتی ہے : ’’اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمتگار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کمسنی کے باعث ابھی) عورتوں کے پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنیٰ ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) انکا وہ سنگھار معلوم ہوجائے جسے وہ (حکم شریعت سے) پوشیدہ کیے ہوئے ہیں اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہوکر) فلاح پا جاؤO‘‘ (النور : ۳۱)
’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے۔‘‘ (الاحزاب : ۵۹)
آپ ﷺایک مرتبہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ حسبِ معمول السلام علیکم کہا۔ سعد نے جواب میں آہستہ سے وعلیکم السلام کہا جو آپ سن نہ سکے۔ اسی طرح تینوں بار ہوا۔ آخر جب آپ ﷺیہ خیال کرکے واپس جانے لگے کہ غالباً گھر میں کوئی نہیں تو حضرت سعد دوڑ کر آئے اور آپ ﷺکو ساتھ لے گئے اور عرض کیا : ’’حضور ﷺمیں نے جواب تو دیا تھا لیکن آہستہ سے، میں یہ چاہتا تھا کہ آپ زیادہ سے زیادہ بار ہمارے لئے دُعا کریں (کیونکہ السلام علیکم بھی سلامتی کی دُعا ہے)۔‘‘آپ ﷺنے فرمایا کہ اگر سلام کے جواب میں صاحبِ خانہ مکان کے اندر سے نام وغیرہ پوچھے تو فوراً اپنا نام بتانا چاہیے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور ﷺکے پاس گیا اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے اندر سے پوچھا : کون ہے؟ میں نے عرض کیا : میں ہوں۔ اس پر آپ ﷺ نے ناگواری سے فرمایا : ’’میں ہوں، میں ہوں‘‘ اور باہر تشریف لے آئے، گویا آپ ﷺنے محض ’’میں ہوں‘‘ جواب دینے کو ناپسند فرمایا۔