محمد معین الدین اختر
حصول علم کیلئے عزم و حوصلہ اورذوق بے حد اہم ہوتے ہیں۔ علم حاصل کرنے یا کسی بھی کام کی تکمیل کیلئے حالات کا ہمیشہ موافق ہونا ضروری نہیں ہے۔ کبھی حالات ناموافق بھی ہوسکتے ہیں۔ بے شمار مسائل، دشواریاں اور رکاوٹیں بھی پیش آسکتی ہیں، لیکن عزم و حوصلہ اور لگن سے اپنے مقاصد کے حصول میں کامیابی ممکن ہے۔ راقم الحروف نے کئی اصحاب کو قریب سے دیکھا ہے جو غربت اور مالی دشواریوں کے باوجود مایوس نہیں ہوئے۔ مسلسل جدوجہد کرتے رہے اور ترقی کے مراحل طئے کرتے ہوئے اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ زیرنظر مضمون میں ایسے ہی چند اصحاب کی زندگیوں کے حقیقی واقعات پیش ہیں۔
ہماری سرکاری ملازمت کے زمانے میں (اندازاً پچاس سال پہلے کی بات ہے) ہمارے دفتر واقع راجندر نگر حیدرآباد میں ایک بے حد محنتی اور دیانت دار اٹنڈر برسرخدمت تھا۔ اس کے دو لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ اٹنڈر زیادہ پڑھا لکھا نہ تھا لیکن اس کی خواہش تھی کہ اس کی اولاد اس کی طرح اٹنڈر نہ بنے بلکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے باعزت و باوقار زندگی گزارے۔ وہ دفتر کے احاطہ میں واقع ایک نہایت چھوٹے سے سرکاری مکان میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے بچے مکان میں تنگی کے باعث ہمارے دفتر کی عمارت کے ورانڈے میں روزانہ رات دیر گئے تک پڑھا کرتے تھے۔ اس سہولت کے باعث اس غریب اٹنڈر کے بچے ایک طویل مدت تک بغیر کسی رکاوٹ اور خلل کے دفتر کے ورانڈے میں ہی نہایت سکون کے ساتھ اپنی پڑھائی کرتے رہے اور اس طرح انہوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کی۔ جب اس اٹنڈر کے بڑے لڑکے نے اپنی ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرلی تب اس غریب خاندان کے وقار میں اضافہ ہوگیا اور ان کے حالات میں بھی ایک بڑی تبدیلی آگئی، وہ اس طرح کہ ہمارے ہی دفتر کے ایک اعلیٰ آفیسر نے اس اٹنڈر کے ڈاکٹر لڑکے کے بارے میں دلچسپی لینے لگا چونکہ یہ آفیسر اس اٹنڈر کے بچوں کے تعلیمی ریکارڈ اور ان کے اخلاق و کردار کے بارے میں اچھی طرح سے واقف تھا اور اس کے علاوہ ان دونوں خاندانوں کی ذات و برادری بھی ایک ہی تھی، اس لئے اس نے اپنی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی کیلئے اس اٹنڈر کے ڈاکٹر لڑکے کے ساتھ رشتہ کی تجویز پیش کی جو بخوشی منظور کرلی گئی اور دونوں کی شادی بھی ہوگئی۔ اس واقعہ میں ایک غریب اٹنڈر کی محنت، جستجو اور اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے اس کا عزم قابل قدر ہے جو اس کے خاندان کے بہتر مستقبل کیلئے سودمند ثابت ہوا۔
ایک دوسرے حقیقی واقعہ کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں کہ ہمارے پڑوس میں ایک غریب ماں باپ کا اکلوتا بیٹا جو راقم الحروف کا ایک اچھا دوست بھی تھا، اس کو اسکول جانے اور علم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا۔ اس کے ماں باپ اگرچہ کہ تعلیم یافتہ نہ تھے، مگر ان کی بھی یہی خواہش تھی کہ ان کا لڑکا جس قدر ممکن ہو تعلیم حاصل کرے۔ انہوں نے اپنے ایک ہمدرد دوست کی مدد سے اپنے لڑکے کو ایک سرکاری اسکول میں شریک کروادیا۔تعلیم کے دوران یہ لڑکا اپنے والد کے کاروبار میں مدد بھی کرتا تھا۔ یہ مصیبت زدہ اور پریشان حال خاندان ستمبر 1948ء کے پولیس ایکشن کے بعد بیدر کے علاقہ سے حیدرآباد منتقل ہوا تھا۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی خاندان محلہ شاہ گنج، حیدرآباد میں واقع ایک قدیم دیوڑھی نواب بشیرالدولہ میں بغیر کسی کرایہ کے مقیم تھے۔ یہاں جو بنیادی بات کا ذکر کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ یہ لڑکا اس قدیم دیوڑھی کے ایک چھوٹے سے مشترکہ کمرہ میں جو بے حد خستہ حالت میں تھا، اپنی پڑھائی کرتا تھا۔ اس کمرہ میں نہ تو بجلی کی سہولت تھی اور نہ لکھنے پڑھنے کیلئے میز و کرسی۔ اس غریب طالب علم کی پڑھائی کیلئے صرف ایک چراغ کی روشنی ہی دستیاب تھی۔ یہ لڑکا ایک تیل کے خالی ڈبہ پر تکیہ رکھ کر اس کو بطور کرسی استعمال کرتا تھا جبکہ کچھ تختوں کو جوڑ کر اس کو ایک ٹیبل کی شکل دی گئی تھی جس پر کتابیں وغیرہ رکھی جاتی تھیں۔ اس لڑکے کو غربت کی وجہ سے کتابوں وغیرہ کی خریدی میں بھی کافی دشواریاں پیش آتی تھیں۔ مگر وقت جیسے جیسے گذرتا گیا، ان کے مالی حالات بہتر ہوتے گئے اور یہ لڑکا بھی ایچ ایس سی (ہائیر سیکنڈری سرٹیفکیٹ) امتحان کامیاب ہوگیا اور اس کو سرکاری ملازمت بھی مل گئی۔ کچھ عرصہ بعد اس نے ملازمت کے ساتھ ساتھ ایوننگ کالج سے گریجویشن کی تکمیل بھی کرلی۔ یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ راقم الحروف کے حالات زندگی بھی کم و بیش ہمارے اس دوست کے حالات کی طرح ہی رہے۔ مگر ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے غربت اور مالی دشواریوں کا عزم و حوصلہ کے ساتھ مقابلہ کیا، کبھی ہار نہیں مانی اور کامیاب بھی ہوگئے۔
آخر میں ایک تیسرے حقیقت پر مبنی واقعہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ہمارے رشتہ داروں میں ایک متوسط فیملی ہے۔ یہ لوگ ابتداء میں اپنے بہتر کاروبار کی وجہ سے ایک مطمئن زندگی گزار رہے تھے لیکن کچھ عرصہ میں کئی وجوہات کے باعث ان کی مالی حالت پہلے جیسی نہیں رہی اور وہ مقروض بھی ہوگئے۔ انہیں ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہیں۔ لڑکا کالج میں اور لڑکیاں اسکول میں زیرتعلیم تھیں۔ انہیں مالی پریشانیوں کی وجہ سے لڑکے اور لڑکیوں کے تعلیمی اخراجات کی ادائیگی میں کافی دشواریاں پیش آرہی تھیں مگر ان کی مستقل مزاجی اور ہمت کی داد دینی چاہئے کہ کئی مسائل کے باوجود انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم کے سلسلے کو ترک نہیں کیا بلکہ اسے جاری رکھا۔ ان کا لڑکا اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے اسکول کے طلباء و طالبات کو پڑھاتا بھی تھا اور اس طرح وہ خود کے اور اپنی بہنوں کے تعلیمی اخراجات کی تکمیل کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس فیملی کے کاروبار بہتر ہوگئے اور ان کا لڑکا ایل ایل بی کے امتحان میں کامیاب بھی ہوگیا۔ قانون کی ڈگری کے حصول کے بعد اب وہ ایک سینئر کے ساتھ پریکٹس کررہا ہے۔ یہ فیملی محض عزم و حوصلہ اور مضبوط اِرادوں کے باعث اپنے مالی مسائل اور پریشانیوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوئی اور آج خوش حال ہے۔
متذکرہ بالا تینوں واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حصول علم کی راہ میں غربت حائل نہیں ہوتی۔ تعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھنے والے ہونہار بچوں کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کیلئے تمام تر سہولتوں سے آراستہ رہائش گاہ اور دولت کی فراوانی ضروری نہیں ہے۔ یوں تو زندگی میں کئی مسائل اور مالی دشواریاں پیش آتی رہتی ہیں لیکن ایسے حالات کا عزم و ہمت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ نوجوانوں کیلئے اپنا بہتر سے بہتر مستقبل بنانے کیلئے جاہلیت کو ختم کرتے ہوئے علم حاصل کرنا بے حد ضروری ہے۔ ایک جاہل تاجر کے مقابل تعلیم یافتہ تاجر زیادہ کامیاب رہتا ہے۔ اسی طرح اعلی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر اچھی ملازمت بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ اس لئے ناموافق حالات سے ڈر کر مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ’’مایوسی کفر ہے‘‘۔ اچھے مقاصد کے حصول کیلئے صحیح سمت میں مسلسل جستجو کرنے والے باہمت افراد کو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی رہتی ہے اور وہ ضرور کامیاب ہوتے ہیں۔ ممتاز شاعر بیکل اتساہی نے کیا خوب کہا ہے:
عزم محکم ہو تو ہوتیں ہیں بلائیں پسپا
کتنے طوفان پلٹ دیتا ہے ساحل تنہا
٭٭٭٭٭