ڈاکٹر حافظ سید شاہ خلیل اللہ اویسؔ بخاری
آپ ﷺ سارے انبیاء کے سردار و افضل ہیں تو آپ کو صحابہ و ساتھی بھی سارے انبیاء کرام کے ساتھیوں اور صحابہ سے افضل عطا کیا گیا ، اُن کی تربیت ، تعلیم و تزکیہ آقا کریم ﷺ کے ذریعہ فرمائی ، یہ ایک ایسی مقدس جماعت ہے جو حضور اکرم ﷺ کے درمیان صرف ایک واسطہ و وسیلہ ہے ۔ حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے سارے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو محمد ﷺکے قلب مبارک کو ان سب قلوب میں بہتر ین پایا، ان کو اپنی رسالت کے لیے مقرر کردیا، پھر قلب محمد ﷺ کے بعد دوسرے قلوب پر نظر فرمائی تو آپ کے صحابہ کرام کے قلوب کو دوسرے سب بندوں کے قلوب سے بہتر پایا، ان کو اپنے نبی ﷺکی صحبت اور دین کی نصرت کیلئے پسند کرلیا‘‘ اور پھر ان کے درمیان بھی درجات و مراتب رکھے گئے اور اس کا خیال رکھنا ضروری ہے جس کا ذکر خود قرآن حکیم میں لَا يَسْتَوِىْ مِنْكُمْ کے ذریعہ ملتا ہے۔
حضرت محمد بن حنفیہ ؓنے اپنے والدِ ماجد حضرت سیّدنا مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے پوچھا: آقا کریم ﷺ کے بعد (اس اُمّت کے) لوگوں میں سب سے بہترین شخص کون ہیں؟ تو سیّدنا علی ؓنے ارشاد فرمایا: حضرت ابو بکر صدیق ؓکی ذات با برکت ہے(صحیح بخاری)
حضرت ابوبکر صدیق ؓ عاشق مصطفی ﷺ ، سالار صحابہ، پیکر صدق و وفا،یار غار و یار مزار،اسلام کے پہلے خلیفہ،افضل البشر بعد الانبیاء بالتصدیق ہیں ۔جس وقت مصطفی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو کئی جاں نثاروں نے اسلام قبول فرمایا ۔ امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق ؓکی شان بہت بلند و بالا ہے،اللہ پاک نے آپ کی شان و عظمت کو قرآن کریم میں بیان فرمایا اور نبی کریم ﷺنے کئی احادیث مبارکہ میں آپ کی شان اور آپ کے فضائل و مناقب کو بیان فرمایا ہے،اور دیگر صحابہ کرام نے بھی آپ کے فضائل اور خصوصیات کا بیان کیا ہے۔حضرتِ ابو بکر صدیق ؓکا لقب’’یارِغار‘‘ رہا جس کا ذکر سورہ تو بہ میں مو جود ہے۔اللہ عز وجل انھیں ثانی اِثنین کے لقب سے یاد فرماکر حبیب پاک ﷺ کے بعد آپ کی عظمت وشان ہونے کا اشارہ دیا ۔ حضور ﷺنے انھیں اپنے مصلیٰ پر امام بنایا آپؓ کی حیات مبارکہ میں آپؓ نے ۹بار امامت فر مائی۔ آپؓ کی فضیلتوں میں یہ بھی شامل ہے کی آپؓ کی ۴پشت صحابی ہیں: (۱) آپؓکے والدین (۲) آپؓ خود بھی صحا بی ہیں (۳) آپؓ کی اولاد بھی صحا بی (۴) آپؓ کی اولاد کی اولاد بھی صحا بی ہیں۔ یہ ایک منفرد اعزاز آپؓ کے حصہ میں رہا۔ اسلام لانے کے بعد اولین داعیوں میں شامل رہے، واقعہ معراج میں مشرکین کے شک کرنے پر انہوں نے فوراً تصدیق کی، جس پر انہیں ’’صدیق‘‘ کا لقب ملا، آپ ’’عتیق‘‘ (آزاد) کے لقب سے بھی موسوم رہے۔ آقا کریم ﷺ کے وصالِ مبارک کے بعد پہلے خلیفہ بنے، جنہوں نے مختصر عرصے میں فتنوں کو دبا کر خلافت کو مضبوط کیا، آپؓ ہی کے دور میں خلافت کا نظام مضبوط ہوا، جس پر عمر فاروقؓ نے عمارت کھڑی کی، اپنی فراست سے نظامِ حکومت چلایا اور بیت المال قائم فرمایا۔ آپؓ اسلام قبول کر نے کے بعد تما م اسلامی جہادوں میں شامل رہے، تمام ’’غزوات‘‘میں آقا کریم ﷺ کی ہمرا ہی میںشا مل رہنے کا شرف حاصل رہا۔
جنگ تبوک کے موقع پر چونکہ شام و روم کے حکمرانوں سے پہلی مرتبہ مقابلہ تھا اور مسلمان خشک سالی سے پریشان تھے ایسے موقع پر آپؓ نے جو اطاعت رسول ﷺ ، ایثار، قربانی وسخا وت کا نمونہ پیش کیا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے ،جس کی مثال تاریخ عالم میں ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔اس غزوہ میں سر کار دوجہاں کی تر غیب پر تمام صحابہ کرام نے حسب استطاعت لشکرِ اسلامی کی امداد کی مگر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سب پر اس طرح سبقت حاصل کی،کہ آپ اپنے گھر کا سارا مال لے آئے، یہاں تک کہ اپنے جسم کا لباس بھی شامل فرمادیا۔جب رسول اللہ ﷺ نے پو چھا کہ: اے بو بکر! گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھو ڑا ہے؟ توآپؓ نے عرض کیا’’گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کا رسول ہی کافی ہیں‘‘۔ اس جواب پر حبیب پاک ﷺ کی چشمان مقدس میں آنسو آگئے اور آپ نے فرمایا: اے ابوبکر میں نے سبھی کو احسانات کا بدلہ عطا کردیا ، رہا تمہارا احسان کہ وہ اللہ عز وجل قیامت میں میری جانب سے ادا کرے گا۔
ایک مرتبہ حضرت ابوبکر کی بجائے حضرت سیدنا فاروق اعظم کے امامت فرمانے پر آپ ﷺنے فر مایا: اللہ اور اس کا رسول یہ پسند کرتا ہے کہ ابو بکرؓامامت کرے۔ یہ بات حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر آپ ﷺکے اعتماد کا اظہارتھا کہ آپؓ ہی مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ہوں۔آپ کے اس دنیا سے پردہ فر مانے کے بعد صحابۂ کرامؓ کے مشورے سے آپؓ کو جا نشینِ رسولؐ مقر رکیا گیا۔ آپؓ کی تقرری امت مسلمہ کا پہلا اجماع کہلاتی ہے۔بارِ خلافت سبھا لنے کے بعد آپؓ نے مسلمانوں کے سامنے پہلا خطبہ دیا۔ عاجزی و انکساری دیکھیں کہ وہ اپنے پہلے خطبہ میں فرماتے ہیں کہ :میں آپ لو گوں پر خلیفہ بنایا گیا ہوں حا لا نکہ میں نہیں سمجھتا کہ میں آپ سب سے بہتر ہوں۔ اُس ذات پاک کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نے یہ منصب وامارت اپنی رغبت اور خوا ہش سے نہیں لیا،نہ میں یہ چا ہتا تھا کہ دوسرے کے بجا ئے یہ منصب مجھے ملے، نہ کبھی میں نے اللہ سے اس کے لیے دعا کی اور نہ ہی کبھی میرے دل میںاس منصب کے لیے حرص لا لچ پیدا ہوئی‘‘۔
جب بھی کبھی اسلام کو ضرورت پڑی حضرت ابوبکر سینہ سپر ٹہرے ملے ، ہجرت کے وقت سواریوں کا انتظام کرکے تیار رہے ، غارِ ثور میں جاں نثاری و خدمت شعاری کی انوکھی داستاں پیش کی ، اس کا صلہ اللہ اور اس کے حبیب پاک ﷺ نے ایسے عطا فرمایاکہ وہ اور حضرت سیدنا عمر بن خطاب ؓ ، حضور ﷺ کے قدموں میں تدفین و آرام فرمارہے ہیں، یہ شان دنیا کے کسی اور فرد کو نصیب نہیں ہوئی ، اس میں شان میں یہ دونوں حضرات منفرد و تنہا نظر آتے ہیں۔
