حافظ صابر پاشاہ
ماہ رجب المرجب کو کئی بزرگانِ دین سے نِسبت حاصل ہے، اِنہی میں سے ایک ہستی ایسی بھی ہے جس نے بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھائی،حُسْنِ اَخلاق کی چاشنی سے بداَخْلاقی کی کڑواہٹ دور کی،عمدہ کِردار کی خوشبو سے پریشان حالوں کی داد رَسی فرمائی اور عِلم کے نور سے جَہالت کی تاریکی کا خاتمہ فرمایاوہ عظیمُ المَرتَبَت شخصیت حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ آپؓکانام”جعفر“ اور کُنیّت ”ابوعبداللہ‘‘ ہے ۔ آپؓ کی ولادت ۸۰ہجری میں ہوئی، آپؓ کے دادا شہزاد ۂ امام حسین حضرت سیّدناامام زین العابدین علی اَوسط اور والد امام محمد باقِر ہیں جبکہ والدہ حضرت سیّدتنا اُمِّ فَرْوَہ ؓبنتِ قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ یوں والد کی جانب سے آپ ”حسینی سَیِّد“ اوروالدہ کی جانب سے ”صدیقی“ ہیں۔ سچ گوئی کی وجہ سےآپ کو ”صادِق‘‘ کے لقب سے جانا جاتا ہے۔آپؓ نےمدینۂ منورہ کی مشکبار عِلمی فضا میں آنکھ کھولی اور اپنے والدِ گرامی حضرت سیّدنا امام ابوجعفرمحمدباقِر، حضرت سیّدنا عُبَيد الله بن ابی رافع،نواسۂ صدیقِ اکبر حضرت سیّدناعُروہ بن زُبَير،حضرت سیّدناعطاء اورحضرت سیّدنانافع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے چشمۂ عِلْم سے سیراب ہوئے) دو جلیل القدر صحابۂ کِرام حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک اورحضرت سیّدنا سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی زیارت سے مشرف ہونے کی وجہ سے آپؓ تابعی ہیں ۔
آپؓ نے حضرت داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ کی اس درخواست پر کہ حضرت مجھے کوئی نصیحت کیجئے، ارشاد فرمایا کہ ’’مجھے تو یہی خوف دامن گیر ہے کہ کہیں قیامت کے دن میرے جد امجد حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میری گرفت نہ فرما لیں اور مجھ سے یہ نہ پوچھ لیں کہ خود تونے میری اتباع کیوں نہیں کی، یہ معاملہ نسب سے نہیں اللہ کی بندگی سے متعلق ہے‘‘۔ یہ سن کر حضرت داؤد طائی زار و قطار رونے لگے اور کہنے لگے کہ جن کا خمیر ہی نبوت کے پانی سے تیار ہوا ہے جب وہ لوگ اس حیرانی اور پریشانی میں ہیں تو داؤد طائی کس گنتی میں ہے۔
ایک روز آپؓ نے اپنے غلاموں سے فرمایا : آؤ تم سب مجھ سے عہد کرو کہ تم میں سے جس کی بھی بخشش ہو جائے وہ قیامت کے دن اللہ کے حضور میری بخشش کے لئے شفاعت کرے گا سب عرض کرنے لگے کہ اے ابن رسول آپؓ کے تو جد امجد خود ساری مخلوق کے شفیع ہیں، اس پر آپؓ نے فرمایا : میں اپنے اعمال سے شرمندہ ہوں، قیامت کے دن اپنے جد امجد کے روبرو کھڑا ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔
آپؓ نے فرمایا دل جب تک غیر اللہ کی محبت و رغبت سے کنارہ کش نہ ہو اسے معرفت الٰہی نصیب نہیں ہوسکتی جب دل غیر اللہ سے جدا ہو جاتا ہے تو اللہ سے واصل ہو جاتا ہے۔ایک روز کسی نے آپؓ کو قیمتی لباس میں ملبوس دیکھ کر اعتراض کیا اور کہا اتنا قیمتی لباس اہل بیت نبوت کے لئے کیسے زیب دیتا ہے؟ آپؓ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی آستین کے اندر پھیرا اندر کا لباس ٹاٹ کی طرح کھردرا تھا ۔ آپؓ نے فرمایا وہ مخلوق کے لئے ہے اور یہ خالق کے لئے ہے۔فرمایا کہ چند لوگوں کی صحبت سے تمہیں ہمیشہ بچنا چاہئے۔ایک جھوٹا، کیونکہ اس کی صحبت تمہیں فریب میں مبتلا کر دے گی۔دوسرا بیوقوف، وہ جس قدر بھی تمہاری بہتری چاہے گا اسی قدر نقصان پہچائے گا۔تیسرا کنجوس، اس کی صحبت سے بہترین اور قیمتی وقت رائیگاں چلا جائے گا۔چوتھا بزدل، وہ ایک نوالے کی طمع میں بھی تم سے کنارہ کش ہو کر تمہیں کسی مصیبت میں مبتلا کر دے گا۔ حضرت سیّدنا امام جعفرصادِق ؓ کی صحبت میں رَہ کرکئی تَلامِذہ(شاگرد) اُمّت کے لئے منارۂ نور بنے۔ آپؓ کے عِلمی فیضان سے فیض یاب ہونے والوں میں آپؓ کے فرزندامام موسیٰ کاظم، امامِ اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک، حضرت سفیان ثَوری،حضرت سفیان بن عینیہ علیہم الرحمہ کے نام سرِفہرِست ہیں۔ آپؓ کے معمولات ِزندگی سے آباء و اجداد کے اَوصاف جھلکتے تھے،آپ کےرویّےمیں نانا جان نبی اکرم ﷺکی معاف کردینے والی کریمانہ شان دیکھنے میں آتی، گُفتار سےصدیقِ اکبر ؓکی حق گوئی کا اظہار ہوتا اور کردارمیں شجاعتِ حیدریؓ نظر آتی۔خوش اَخلاقی آپؓکی طبیعت کا حصہ تھی مگر جب کبھی ذکرِ مصطفےٰ ہوتا تو ( نبی کریم ﷺ کی ہیبت وتعظیم کے سبب)رنگ زَرد ہوجاتا،کبھی بھی بے وضو حدیث بیان نہ فرماتے ، نمازاور تلاوت میں مشغول رہتےیا خاموش رہتے ، آپ کی گفتگو”فضول گوئی“سے پاک ہوتی۔
آپؓ کا وصال ۱۵ رجب المرجب ۱۴۸ ہجری کو ۶۸ سال کی عمر میں ہوا اور تدفین جنت البقیع میں آپ کے دادا امام زین العابدین اور والد امام محمد باقِر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی قبورِ مبارکہ کے پاس ہوئی۔