حضرت سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادری ؒ

   

سید شجاعت اللہ حسینی بیابانی
حضرت سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادری رحمۃ اللہ علیہ ۱۲۱۰ھ؁ میں تولد ہوئے۔ آپؒ کی ابتدائی تعلیم قلعہ ورنگل میں حضرت فقیر اللہ شاہ صاحب کے پاس ہوئی۔ آپؒ نے بارہ سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کیا اور حیدرآباد میں مولوی قطب الدین صاحب اور مولوی سید صدر الدین صاحب سے علوم دینیہ کی تکمیل کی۔ علاوہ ازیں حیدرآباد میں اپنے رشتہ کے تایا حضرت سید شاہ غلام علی صاحب قادری الموسوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہ کر معنوی فیضان سے سرفراز ہوئے۔ حضرت سید شاہ غلام علی صاحب نے دعا فرمائی کہ ’’الہٰی! جیسا میرا حال ہے، اس کا حال بھی ویسا ہی کردے‘‘ اور آپ نے ذکر کلمہ طیبہ کی تلقین فرمائی۔ آپؒ عشق الہٰی میں ہمیشہ روتے رہتے اور پہاڑ بوڑا گٹہ (قاضی پیٹ ریلوے اسٹیشن کے قریب)، شکم تالاب کوٹ چرو اور اس کے قریب کی چٹانوں پر مشغول عبادت رہتے۔ کتاب افضل الکرامات میں حضرت سید شاہ درویش محی الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا کہ ’’دورانِ عبادت و ریاضت آپؒ پر تجلیاتِ ربانی کا ورود ہوا کرتا تھا‘‘۔ آپؒ کو آپؒ کے والد محترم نے سلسلۂ قادریہ و سلسلۂ رفاعیہ میں خرقۂ خلافت سے سرفراز فرمایا۔ والد محترم کے انتقال کے بعد صدر قاضی سرکار ورنگل مقرر ہوئے اور آپؒ کے حصہ میں قاضی پیٹ موضع کی جاگیر آئی۔ ان دنوں ہنمکنڈہ انگریزی حکومت اور نظام سرکار کی متحدہ افواج کا رسالہ تھا، جس میں عہدہ دار انگریز ہوا کرتے، جب کہ فوجی ہندو اور مسلم تھے۔ چنانچہ آپؒ نے ان مسلم فوجیوں سے ربط پیدا فرمایا اور پھر کچھ ہی عرصہ میں نہ صرف ہنمکنڈہ بلکہ دکن اور ہندوستان کے مختلف کنٹونمنٹ کے مسلم فوجیوں نے آپؒ کی ذات بابرکت سے واقف ہونے کے بعد آپؒ سے شرف بیعت حاصل کیا، اس طرح کچھ ہی عرصہ میں ہزارہا لوگ آپؒ کے مرید ہوئے۔
آپؒ نے اپنے مریدوں کی تعلیم و تربیت کے لئے قاضی پیٹ میں خانقاہ کا انتظام فرمایا، جہاں نہ صرف قیام بلکہ طعام کا بھی انتظام رہتا تھا۔ سیکڑوں مریدین اس خانقاہ میں مہینوں اور بعض برسوں قیام کرتے۔ یہ خانقاہ تاڑ کے پتوں اور گھاس کی چھت پر مشتمل تھی، جس کو وقت ضرورت مریدین ہی درست بھی کرلیا کرتے۔ خانقاہ کے تمام اخراجات حضرت خود اُٹھاتے، جس کی وجہ سے آپؒ کے اہل و عیال کو تنگی کا سامنا کرنا پڑتا۔ آپؒ کے بڑے صاحبزادے حضرت سید شاہ سرور بیابانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’اس زمانہ میں حضرت کا دریائے عشق الہٰی جوش پر تھا۔ فیضانِ عام اور عقیدت مندوں کی کثرت کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ صرف حضرت ہی قاضی پیٹ کی آبادی میں رہ سکیں گے، بلکہ عقیدت مندوں کی کثرت کی وجہ سے موضع قاضی پیٹ ناکافی ہوگا‘‘۔ہندوستان کے مختلف مقامات سے مشائخ و علماء کرام آپ سے شرف ملاقات و حصول فیض کے لئے تشریف لاتے۔ آپؒ کی خصوصیت یہ تھی کہ جو کوئی حاضر خدمت ہوتا، حصول مقصود سے محروم نہ ہوتا، یعنی اس کے حق میں اللہ تعالیٰ آپ کی دعا قبول فرماتا۔ حضرت کا وصال ۲۷؍ صفر المظفر۱۲۷۳؁ھ بعمر ۶۳سال ہوا۔ جس جھونپڑے میں آپؒ عبادت الہٰی میں مصروف رہتے تھے، اسی مقام پر آپؒ کی تدفین عمل میں آئی، لیکن اب آپؒ کے مزار شریف پر ایک عالیشان سبز گنبد تعمیر ہو چکا ہے۔