حضرت علامہ أبوالوفاء افغانی رحمۃ اﷲ علیہ

   

مولانا شاہ محمد فصیح الدین نظامی

اس کائناتِ رنگ وبو میں سب سے زیادہ لطیف رشتہ حسن ومحبت کارشتہ ہے لیکن جب بندے کی محبت کا رشتہ اس حسن سے قائم ہوتاہے جسے حسنِ ازل کہتے ہیں اوراس جمال سے ہوجاتاہے جو لازوال ہے تو پھراس رشتے سے بڑھ کر لطیف، اس سے زیا دہ شیریں اور اس سے زیادہ نشاط انگیز کوئی دوسرا رشتہ نہیں ہوتا۔ اہل دل کی اصطلاح میں اسے عشقِ حقیقی کہتے ہیں۔ اسی مقدس رشتہ کو استوار کرنے آج سے تقریباً دیڑھ صدی قبل سرزمین دکن پر عارف وقت، عالم زماں شیخ الاسلام علامہ ابوالبرکات محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ قدس سرہ العزیزنے ایک دانش گاہ علم وفن، ایک میخانہ معرفت کی داغ بیل ڈالی جس کانام ’’جامعہ نظامیہ‘‘ حیدرآبادہے۔ اسی جامعہ کے ایک گل فقیہ الامۃ،محدث جلیل،عالم کبیر،محقق کبیر،حضرت العلامہ حافظ وقاری سید محمودشاہ بن مبارک شاہ المعروف بہ علامہ ابوالوفاالافغانی علیہ الرحمہ کی ذات عالی مرتبت ہے جن کے تبحر، تفحص، توکل کو فصحاء عصر اور بلغاء دہر خراج فکر و نظر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں علامہ ایک بین الاقوامی شخصیت کے مالک تھے اور سر زمین دکن میں اٰیت من اٰیات اﷲ تھے ، کردار میں گفتار میں اللہ تعالیٰ کی برھان تھے۔
ولادت: بلند پایہ محدث و فقیہ بے بدل حضرت ابوالوفاء الافغانی، حنفی، قادری، دس ذی الحجہ ۱۳۱۰ ہجری کو افغانستان کے مشہور شہر قندھار میں پیداہوئے ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد جامعہ نظامیہ تشریف لائے اور بانی جامعہ سے درس تلمذ کا شرف حاصل کئے ۔ حضرت ابوالوفاء علیہ الرحمہ جامعہ نظامیہ میں بے تاج بادشاہ تھے، آپ کسی وقت کوئی عہدہ قبول نہیں فرمایا مگر آپ کے اخلاص، علمی اور عملی دبدبہ اور صحیح فکر اور رہبری کی وجہ سے نہ صرف علمائے جامعہ نظامیہ بلکہ ارباب اقتدار بھی آپ کی رائے کو ٹال نہیںسکتے تھے۔ حضرت ابوالوفاء علیہ الرحمہ بڑے مہمان نوازتھے۔ بے شمار علماء تحقیقاتی اور علمی کاموں اور نادر مخطوطات سے استفادہ کرنے کے لئے حیدرآبادتشریف لاتے تو آپ کے پاس ہفتوں مہمان رہتے۔ بہرحال حضرت ابوالوفاء علیہ الرحمہ کی مبارک زندگی بڑی منـضبط اور باقاعدہ تھی ہر کام کا وقت مقرر تھا۔ نما زتہجد کبھی ناغہ نہ ہوتی، قرآن کی تلاوت دن اور رات میں الگ الگ مقررہ تھی ۔ حضرت ابوالوفاء علیہ الرحمہ ایک جلیل القدرعالم باعمل تھے۔ علوم عقلیہ ونقلیہ بالخصوص حدیث نبوی، فقہ حنفی پرگہری نظرتھی ۔ فن قرأت، نظم قرآن، رسم قرآن اور تاریخ اسلام کاوسیع مطالعہ تھا۔ مذاہب اربعہ کے اصول وفروع میں یدطولی رکھتے تھے ۔ اسی سبب سے آپ کودکن میں فقہ حنفی کاامام مانا جاتا تھا۔ آخری عمر میں بیماریوںنے شدت اختیارکی اور خصوصا ضعف بڑھتا گیا جگر میں پانی جمع ہوگیا پانی نکالا گیا اس کے بعد عالم سکرات شروع ہوگیا، غشی کے عالم میں یوں فرماتے کہ’’میں نے ایک نیا گھر بنالیا ہے‘‘۔
وصال: حضرت علامہ ابوالوفاء افغانی علیہ الرحمہ کا وصال۱۳؍ رجب المرجب ۱۳۹۵ہجری بروز چہارشنبہ ہوا ہے روح مبارک جب پرواز ہوئی تولبوں پرمسکراہٹ تھی اور تدفین تک قائم رہی اناﷲ واناالیہ راجعون۔آپ کا مزار پُر انوار نقشبندی چمن، مصری گنج حیدرآباد میں مرجع وابستگان ہے۔
٭٭٭