ڈاکٹر قمر حسین انصاری
تعلیم اور تربیت کی طرح دانائی اور حکمت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ۔ جس طرح تربیت کے بغیر تعلیم بے سود ہے اُسی طرح حکمت کے بغیر دانائی فضول ہے ۔ انسان کے دماغ کو خالق نے ایک قیمتی نعمت سے نوازا ہے جسے عام زبان میں ذہانت ، دانائی یا (Intellect) کہتے ہیں ۔ ہر انسان کو اچھائی اور برائی ، سیاہ و سفید ، سچ اور جھوٹ ، حق اور باطل ، اندھیرے اور اُجالے میں تمیز کرنے کی فطری صلاحیت بخشی گئی ہے جس کی کرنیں اُسی دماغ سے پُھوٹتی ہیں جس سے انسان اپنے سامنے کی ہر روشن چیز پر غور و فکر کرتے ہوئے اور حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنے لئے ایک ’’حکمتِ عملی ‘‘ مرتب کرتا ہے اور اعتدال برقرار رکھتا ہے ۔ ایسے انسان کو صاحب شعور، ذہین اور دانا (Intelligent and Wise) انسان کہا جاتا ہے جس میں سونچنے ، سمجھنے ، سیکھنے اور حقائق تک پہنچنے کی اور حالات کا تجزیہ کرکے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ ناخوشگوار اور خوشگوار حالات سے کیسے نمٹا جائے وہ اپنے حواسِ خمسہ استعمال کرتے ہوئے بہتر سے بہتر طریقہ کار کی طرح پیش قدمی کرتا ہے عمر کے اضافہ کے ساتھ ساتھ اپنے برتاؤ ، رویوں ، تال میل میں مثبت تبدیلی لاتے ہوئے ایک تہہ اور کامیاب زندگی کی جستجو اور فکرمندی میں رہتا ہے ۔ ایسے انسان کا ہمارے معاشرے میں فقدان بلکہ قحط ہے ۔
عام طورپر ذہانت ، دانائی اور حکمت میں بال برابر فرق ہوتا ہے جس کا لحاظ نہیں کیا جاتا ۔ آئیں غور کریں یہ فرق کیا ہے ؟
۱۔ ذہانت بحث و مباحثوں کو بڑھاوا دیتی ہے جبکہ حکمت اُن کا حل نکالتی ہے ۔
۲۔ دانائی اپنے خواہشات کی طاقت ہے جبکہ حکمت اُس طاقت پر قوی ہے ۔
۳۔ ذہانت آگ لگاتی ہے اور حکمت اُس آگ کو ٹھنڈا کرکے سُکون و فرحت پہنچاتی ہے ۔
۴۔ ذہانت علم کے حصول کی طرف لیجاتی ہے جبکہ حکمت حقیقت کی تلاش میں انسان کو گامزن رکھتی ہے ۔
۵۔ دانائی میں پکڑ ہے مگر حکمت میں چھوٹ ہے ۔
۶۔ ذہین انسان سمجھتا ہے کہ اُسے سب معلوم ہے لیکن عقلمند آدمی کو ہمیشہ یہ احساس رہتا ہے کہ اُسے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے ۔
معلوم ہوا کہ دانائی اچھی خوبی ہے مگر حکمت یا (Wisdom) ایک باشعور اور معقول انسان کی معراج ہے جس سے بہتر نتائج نکلتے ہیں ۔
انسان جب اپنی ذہانت سے اپنے رب کی کتاب سے رشتہ جوڑلیتا ہے تو آیاتِ قرآنیہ اُس کے باطن اور ظاہر میں تربیت کا ایسا عمل جاری کرتی ہیں جن سے انسان کی شخصیت نکھرتی ہے اور اُبھرکر باکمال ہوجاتی ہے اور وہ لازماً اپنے اِردگرد کے ماحول میں ایک اُمید کی کرن بن جاتی ہے اور بندگانِ خدا کے لئے ’’خیرِکثیر‘‘ بن جاتی ہے۔
سورۂ بقرہ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : وہ اﷲ ہی ہے جو جسے چاہے حکمت اور دانائی سے نوازے اور اُسے ’’خیرکثیر‘‘ سے نوازے ۔
سورۂ الزمر میں اﷲ تعالی مزید فرماتا ہے جو بندگانِ خدا ’’دانائی اور حکمت کی باتوں کو توجہ سے سنتے ہیں اور اُس پر عمل کرتے یہی لوگ ہیں جنھیں اﷲ نے ہدایت دی ہے اور عقل مند ہیں ‘‘۔ تجربہ کہتا ہے کہ جب ایک ذہین انسان کتاب ہدایت اور سنتِ رسول ؐ سے اپنا رشتہ استوار کرلیتا ہے تو مجمع میں سب سے ممتاز شخصیت دکھائی دینے لگتا ہے جسے دیکھ کر اﷲ اور اُس کے رسولؐ یاد آتے ہیں اُن میں رب العالمین کے حاضر و ناظر ہونے کا احساس اور اُس کی گرفت کا حقیقی خوف اپنی ذمہ داریوں کے نبھانے میں کامرانی سے ہم کنار کرتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی وضاحت سورۃ النور میں کی ہے ۔ ایسے اصحاب حکمت اور دانائی سے دوسروں سے اُمیدیں وابستہ کرنے کے بجائے نیکیاں اکٹھا کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور اپنے رب کو راضی کرنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں ۔
بخاری اور مسلم میں دو اہم احادیث درج ہیں :
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا حسد ( رشک ) صرف دو آدمیوں کے سلسلہ میں جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اﷲ نے حکمت عطاء کی تو وہ اُس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو اُس کی تعلیم دیتا ہے ۔
مسند احمد اور بخاری میں ایک روایت ملتی ہے جس میں حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں نبیؐ نے مجھے اپنے سینے سے لگایا اور دُعا فرمائی ’’اے اﷲ اس بچہ کو قرآن کا پختہ علم اور دین کی حکمت سے مالا مال فرما‘‘۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم گُم ہوجائیں گمراہی کے راستوں پر کیونکہ ؎
پانی میں ہے آگ کا لگانا دُشوار
بہتے دریا کو پھیر لانا دُشوار
دُشوار سہی مگر نہ اتنا جتنا
بگڑی ہوئی قوم کو بنانا دُشوار
(اسمٰعیل میرٹھی )
دُعا کیجئے کہ اﷲ ہماری دانائی کو حِکمت کی راہ پر گامزن رکھے … آمین