خواتین کی عصمت پر سیاست افسوسناک

   

اپنے ہی شہر میں ملتے ہیں کئی ویرانے
اپنے ہی شہر کے دروازے پہ دربان نہ تھا
ہندوستان کی یہ روایت رہی ہے کہ یہاں خواتین کا بہت زیادہ احترام کیا جاتا ہے ۔ یہاں خواتین کو دیوی سمجھا جاتا ہے ۔ خواتین کی عزت و عصمت کی حفاظت ہر ایک اپنا فرض سمجھتا رہا ہے ۔ خواتین کو سماج میں خصوصی مقام حاصل ہوتا ہے اور آج کے دور میں خواتین ہر شعبہ میں ترقی کرتے ہوئے اپنا مقام خود بھی بنانے لگی ہیں۔ تاہم گذشتہ چند برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ خواتین کی عصمت و عفت کے انتہائی حساس اور سنگین مسئلہ پر بھی سیاست کی جا رہی ہے ۔ خواتین کی عصمت ریزی اور ان کے ساتھ مظالم چاہے کہیں بھی ہوں اور چاہے جو کوئی اس کا مرتکب ہو یہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک عمل ہوتا ہے ۔ ایسا کرنے والے مجرمین کے خلاف سخت ترین سزائیں دیتے ہوئے دوسروں کیلئے عبرت بنایا جانا چاہئے ۔ ایسے معاملات پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے ۔ ایسا کرنے والوںکا سماج میں بائیکاٹ کیا جانا چاہئے ۔ تاہم آج کے دور میں دیکھا جا رہا ہے کہ جس کسی ریاست میںایسے شرمناک واقعات پیش آ رہے ہیں وہاں سیاسی وابستگی کو ملحوظ رکھا جا رہا ہے ۔ ایسا ہونے لگا ہے کہ جس پارٹی کی ریاست میں حکومت ہوتی ہے وہ پارٹی اس پر روایتی بیانات دیتی ہے جبکہ جو پارٹی ریاست میںاپوزیشن میں رہتی ہے وہ ایسے معاملات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے مزید رسوائی اور شرمساری کی باعث بن رہی ہے ۔ جو جرائم کا ریکارڈ دستیاب ہے اس کے مطابق ہندوستان کی ہر ریاست اور ہر شہر میں عصمت ریزی کے واقعات پیش آتے ہیں لیکن آج کے وقت میں بی جے پی کی جانب سے اس طرح کے واقعات پر سیاست کرتے ہوئے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔اس کی مثال کولکتہ میں پیش آئے آر جی کر ہاسپٹل کا واقعہ ہے تو اب ٹاملناڈو میں ایک یونیورسٹی طالبہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا واقعہ بھی مثال ہے ۔ ان دونوں واقعات پر بی جے پی ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے سیاست کرنے لگی ہے جبکہ خود بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں ایسے بے شمارواقعات پیش آ رہے ہیںلیکن پارٹی ان پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرتی چلی جا رہی ہے اور محض مخالفین کو نشانہ بنانا اس کا مقصد رہ گیا ہے ۔ یہ تاثر عام ہونے لگا ہے کہ پارٹی کو متاثرین سے کوئی ہمدردی ہی نہیں ہے ۔
جس وقت کولکتہ واقعہ پر بی جے پی اور دیگر جماعتوں کی جانب سے ہنگامہ کیا جا رہا تھا اس دوران ہی اترپردیش میں بھی ایک نرس کی عصمت ریزی ہوئی اور اس کا بھی قتل کردیا گیا ۔ مدھیہ پردیش میں ایک فوجی کی ساتھی کو نشانہ بنایا اور اس کے ساتھ زیادتی کی گئی لیکن ان واقعات کو نہ تو میڈیا میں کوئی توجہ دی گئی اور نہ ہی ان پر کسی طرح کا رد عمل ظاہر کرنا بی جے پی نے ضروری سمجھا ۔ توجہ دلانے پر بھی خاموشی اختیار کرتے ہوئے محض ان واقعات کا استحصال کیا جا رہا ہے جو اپوزیشن زیر اقتدار ریاستوں میں پیش آ رہے ہیں۔ اس طرح کے شرمناک اور افسوسناک واقعات چاہے جس ریاست میں پیش آئے چاہے جس شہر میںپیش آئیں انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہیں۔ ان کی جتنی مذمت کی جائے کم ہیں۔ کسی مخصوص ریاست میں پیش آنے پر اس طرح کے واقعات کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا تاہم صرف چند مخصوص واقعات کا استحصال کرتے ہوئے ان سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا انتہائی پست سوچ کی عکاسی کرتا ہے ۔ عصمت ریزی کے واقعات سارے سماج اور سارے ملک کیلئے رسوائی کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ سماج پر کلنک اور دھبہ کے مترادف ہوتے ہیں اور اس طرح کے واقعات پر کسی طرح کی سیاست کرنا یا ان سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا ایک بیمار ذہنیت کی علامت بھی کہا جاسکتا ہے ۔ تاہم افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے واقعات ہمارے آس پاس ہو رہے ہیں اور ان سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے ۔ اس سوچ اور اس ذہنیت کو تبدیل کرنے اور بدلنے کی ضرورت ہے ۔
ہندوستان جیسے ملک میں جہاں خواتین کی عزت و احترام کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی رہی ہے اس طرح کے واقعات کا پیش آنا ہی انتہائی مذموم فعل ہی ہے ۔ اس سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ اس پر سیاست کی جا رہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس طرح کے واقعات پر سیاست کرنا بند کریں۔ متاثرین کی حقیقی ہمدردی اسی وقت ممکن ہے جب ان کو انصاف دلایا جائے ۔ اس طرح کے مذموم واقعات کا تدارک کرنے کیلئے حکمت عملی بنائی جائے ۔ سماج میں شعور بیدار کیا جائے ۔ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو عبرتناک سزائیں دلائی جائیںاور خواتین میں اعتماد اور اطمینان بحال کیا جائے ۔ جب تک مثبت سوچ کے ساتھ کام نہیں کیا جائیگا اس وقت تک ایسے واقعات کا تدارک اور سدباب آسان نہیں ہوگا ۔ منفی سوچ کو یکسر مسترد کردیا جانا چاہئے ۔