دورۂ حاضر میں قدیم زمانے کے عظیم بزرگ

   

حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مدظلہ العالی

میں ۱۳؍ فبروری ۲۰۲۴؁ء کو امرتسر سے ہوتے ہوئے وہاگا سرحد سے پاکستان میں داخل ہوا، جب میں داخل ہوا تو دل میں ایک قسم کی بے چینی ضرور تھی لیکن ایمیگریشن پر مجھے UK اور سنگاپور کی شہریت کے حامل دو دوست مل گئے اور میں امریکی شہریت کا حامل تھا اس لئے ایک گونا اپنائیت مجھے محسوس ہونے لگی اور شاید ہم تینوں شخصی طور پر اسی قلبی قلق کا شکار تھے ۔ بناء بریں ہم تینوں ایک دوسرے کو چھوڑ نے تیار نہیں ہوئے ، ساتھ ساتھ ایمگریشن کا رروائی سے فارغ ہو کر واپس بارڈر کی طرف آئےجہاں ہندوستانی پاکستانی فوج کی پریڈ تھی اور بارڈر کے دونوں جانب ہندوستان اور پاکستان کی عوام اپنی اپنی فوج کی پریڈ کا مشاہدہ کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ اس خوشنمامنظر اور فرحت افزا ماحول سے ہمارے سفر کا آغاز ہوا اور ہم تینوں اجنبی ایک دوسرے کا سہار ا بنتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لاہور کی بہترین ہوٹل میں ہم نے عشائیہ تناول کیا اور خوب محظوظ ہوئے۔ اور مغربی طرز کے مطابق بغیر کسی جھجھک کے ہم نے اپنے اپنے بل کو ادا کیا ۔ پھر ڈرائیور نے ہم تینوں کو اپنی اپنی ہوٹل پر ڈراپ کر دیا ۔دوسرے دن ۱۴؍ فروری سہ پہر کو اس گنہگار کو مرکز تجلیات داتا گنج بخش حضرت علی ہجویریؒ کے آستانہ پر حاضری کا شرف نصیب ہوا۔ هزار ساله قدیم بزرگ ہیں ۔ جہاں ہندالولی ، سلطان الہند غریب النواز خواجۂ اجمیری حضرت سید معین الدین چشتیؒ نے چھلہ کشی کی ہے۔ حضرت با با فرید الدین گنج شکر، حضرت خواجہ باقی باللہ ، حضرت مجدد الف ثانیؒ تشریف لے گئے ہیں۔ آپ کی تصنیف ’’کشف المحجوب ‘‘ تصوف کا خزانہ ہے ، حضرت نظام الدین محبوب الہیؒ فرماتے ہیں، جس کا کوئی پیر نہ ہواُس کے لئے کشف المحجوب کافی ہے ۔
حضرت علی ہجویری قدس سرہ کی شان میں حضرت غریب نواز رحمتہ اللّہ علیہ فرماتے ہیں کہ عالم کو آپ سے فیض پہنچا ، آپ مظہرِ نورِ خدا ہیں، نا قصوں کے لئے پیر کامل ہیں اور کاملین کے لئے مقتدا ہیں۔
گنجِ بخشِ فیضِ عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
لاہور میں دو دن قیام کے دوران تین مرتبہ داتا دربار حاضری کا موقعہ ہوا۔ دورانِ زیارت ایک ملنگ سے ملاقات ہو گئی جس نے ’’تم بار بار آؤ گے زیارت کے لئے کہا اور چلے گیا‘‘۔
میرے شیخ صحبت حضرت سید خواجه بهاء الدین نقشبندی المعروف فاروق انجینئر مدظلہ العالی نے مجھے بار بار تاکید کی تھی کہ بادشاہی مسجد ضرور جاناو ہاں تبرکات کا خاصا ذخیرہ ہے ۔ حسب الحکم بادشاہی مسجد جانا ہوا جو مینارۂ پاکستان اور قلعہ لا ہور کے ساتھ ہی ہے۔ نہایت پرشکوہ عمارت ہے اور نگ زیب عالمگیر نے دہلی کی جامع مسجد کی طرز پر تعمیر کروائی ہے ۔ مغرب سے کچھ دیر قبل پہنچا ڈرتھا کہ تبرکات مقدسہ کی زیارت کا موقعہ رہیگا یا نہیں ، خوش قسمتی سے داخل ہوتے ہی ایک شخص نے آواز دی کہ تبرکات مقدسہ کی عمارت بند کرنے کا وقت ہو رہا ہے خواہشمند حضرات پہلے زیارت کو آجائیں۔ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ہم اس حصہ میں داخل ہوگئے جہاں نبی اکرم ﷺ کے موئے مبارک ، کلاۂ  مبارک ، حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی کلاہ مبارک ، حضرت غوث پاک قدس سرہ العزیز کی کلاہ مبارک وغیرہ اہم تبرکات موجود تھے ۔
۱۵ فروری رات دیر گئے میں جھنگ میں حضرت مولانا حافظ پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مدظلہ العالی کے ادارہ جامعۃ معھد الفقیر پہنچا ہی تھا کہ حضرت قبلہ ایک دعوت سے واپس ہو رہے تھے اور گیٹ ہی پر سلام و مصافحہ ہوا اور سرسری تعارف ہو گیا ۔ حضرت قبلہ تشریف لے گئے اور میرے لئے رہنے کے انتظامات کر دیئے گئے۔
میرا قیام مسجد کے محراب سے متصل کمرہ سے کیا گیا جس میں ہر قسم کی سہولتیں موجود ہیں بالعموم بیرونی علماء جو امریکہ و بیرونی ممالک سے تشریف لاتے ہیں قیام کرتے ہیں، جمعہ سے قبل حضرت قبلہ اس حجرہ میں تشریف لائے ۔ نام پوچھا ، آنے کا سبب دریافت کیا۔ جب میرے نام کے ساتھ لفظ ’’صدیقی‘‘ سنا تو بہت خوش ہوئے ، استفسار کیا کہ کیا آپ کا نسب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ جب میں نے اثبات میں جواب دیا تو چہرے پر ایک انبساط کی کیفیت تھی ، پھر فرمایا میرے دادا پیر کے نام میں یہ نسبت آتی ہے ، اُن کا نام محمد عبدالمالک صدیقی ہے ۔ میں کہنے کی جرات نہیں کر سکا لیکن حسن اتفاق سے میرے دادا جان کا نام بھی محمد عبد المالک صدیقی ہے۔ عصر کے بعد سالکین کی جماعت کے ہمراہ حضرت قبلہ کے دولت خانہ پر حاضری ہوئی ۔ حضرت قبلہ نے لطائف سے متعلق کچھ اہم نکات بیان کئے چونکہ میں روبرو کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور ان نکات کو تیزی سے قلمبند کرنا چاہتا تھا حضرت قبلہ نے خادمین کو حکم دیا کہ مجھے ’’زبدۃ السلوک ‘‘ ، ’’معارف السلوک ‘‘ اور ’’مدارج السلوک ‘‘ تین کتابیں فراہم کر دی جائیں ۔میں نے ان کتابوں کا مطالعہ‎ کیا ۔ بلا مبالغہ ان کتابوں کے اسلوب زبان اور تفہیم سے حددرجہ متاثر ہوا۔ مکتوبات امام ربانیؒ اور مکتوبات خواجہ معصومؒ کی مفصل تشریح ہیں۔ نقشبندی سلوک کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے ۔ اصطلاحات نقشبند کی علمی و صوفیانه تشریح ، سہل زبان میں کی گئی ہے۔ اکابر نقشبند نے مقامات سلوک کی تشریح و تعبیر و اسباق سلوک کے لئے جن اصطلاحات و تعبیرات کا استعمال کیا ہے وہ بالعموم صوفیہ کی عام اصطلاحات سے جداگا نہ ہیں اس لئے ان کوسمجھنے میں دشواری ہی ہوتی ہے۔ حضرت قبلہ نے نہ صرف دیگر اصطلاحات سے ان کا تقابل کرکے سمجھایا بلکہ قاری کے قلب و دماغ میں آنے والے اشکالات کو بھی رفع کیا ۔سلوک کے تمام اسباق کے درمیان ایک کنکشن اور ربط کو قائم کر دیا ۔ بلکہ یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں کہ یہ کتابیں نقشبندی سالکین کے لئے عظیم نعمت ہیں جو کہ سلوک مجددی کی مفصل شروحات ہیںجو قدیم کتابوں کا نچوڑ ہے اور دیگر شروحات سے بے نیاز کردیتی ہیں ۔ جب حضرت قبلہ سے تفصیلی ملاقات ہوئی تو حضرت قبلہ نے فرمایا میں نے آپ کے حجرہ میں کتابیں دیکھیں تھیں اس لئے آپ کو اپنی کتابیں مطالعہ کے لئےدیدیں ورنہ ہمارے اکا برکتابیں پڑھنے سے منع کرتے ہیں ۔ تصوف حال کا نام ہے قال کا نام نہیں ۔ پھر مجھ سے دریافت کیا آپ نے کیا پڑھا ہے۔ میں نے عرض کیا : سلوک نقشبند میں بہت کچھ پڑھا ہے اور کتاب سمجھنے کی فہم بھی بہت ہے اور سلوک کو سمجھنے کے لئے آپ کی ماشاء اللہ سے کتابیں بھی کافی ہیں ۔ آپ کے پاس حاضر ہونے کا مقصد یہ ہے کہ آپ لطائف پر توجہہ فرمائیں – حضرت قبلہ نے فی الفور ساتوں لطائف پر توجہ فرمائی اور عالم خلق اور عالم امر کے لطائف کی تشریح کی اور فرمایا اسکویاد رکھیں مابقی سب بھول جائیں۔ قال کو ترک کر کے حال کی طرف آجائیں ۔ مراقبہ پر زور دیں۔ پھر آپ نے نصیحتیں فرمائیں۔’’انا‘‘ کو فنا کریں ۔ حضور پاک ﷺ نے فرمایا جس کے دل میں رمق برابر تکبر ہو وہ جنت میں نہیں جائیگا ۔ اللہ تعالی کے لیے تواضع اختیار کریں ، وہ رفعت عطا کریگا۔ نظر کی حفاظت کیجئے ۔ اس سے سارے کام خراب ہوتے ہیں۔ خواتین شیاطین کے پھندے ہوتے ہیں۔ سیل فون کی تباہی سب سے زیادہ مہلک ہے۔ میں کہتا ہوں یہ تو Hell Phone یہ جہنم کے فون ہیں۔آپ اپنے اوپر تہجد کو فرائض میں شامل کر لیں کیونکہ یہ مزدور کو مزدوری کے ملنے کا وقت ہوتا ہے ۔ اور آپ حافظ قرآن ہیں تو یہ قرآن مجید پڑھنے کا سب سے بہترین وقت ہے ۔بہر کیف حضرت قبلہ سے ملکر اور آپ کی خانقاہ کا نظام دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا ہوں ۔ اگر دو لفظوں میںحضرت قبلہ کی شخصیت کی تعریف کروں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں قدیم زمانہ کے بزرگ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے تربیتی کام میں غیر معمولی برکت دی ہے ۔ بر وقت سالکین کا ہجوم رہتا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں سے لوگ سلوک کے لئے آتے ہیں اور آپ کے خلفا ء اپنے اپنے مقامات میں سلوک و تربیت کے کام انجام دے رہے ہیں
این سعادت بزور بازو نیست
تانه بخشد خدائے بخشنده