دیشا کیس۔ دیکھیں‘ انکاونٹر پر سیاست کے قارئین کیاکہتے ہیں۔

,

   

مذکورہ واقعہ نے ملک کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے

حیدرآباد۔تمام شعبہ حیات کے لوگ جمعہ کے روز پیش ائے انکاونٹر کے واقعہ کے بعد سے آپس میں بحث اور مباحثہ کرتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں‘ پچیس سالہ حیوانات کی خاتون ڈاکٹرکی عصمت ریزی اورقتل معاملے میں گرفتار چاروں ملزمین کو مذکورہ انکاونٹر میں پولیس نے ڈھیر کردیاتھا۔

قتل اور عصمت ریزی کے اس گھناؤنہ واقعہ نے سارے ملک کے ضمیر کے جھنجھوڑ کر رکھ دیاتھا اور کئی لوگ اس قسم کے واقعات اورجرائم جو خاص طور پرخواتین کے ساتھ پیش آرہی ہے کو روکنے کے لئے موثر عدالتی نظام کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں۔

کئی لوگ جس میں سیاسی قائدین بھی شامل ہیں اس کیس میں عدالتی تحویل کے دوران پیش ائے انکاونٹر میں ہوئے ہلاکتوں کی حمایت سے اظہار یگانگت پیش کررہے ہیں

یہاں پر سیاست ڈاٹ کام کے چند قارئین نے اس واقعہ پر کیاکہا ہے اس کو پیش کیاجارہا ہے

ایک قاری نے لکھا کہ ”موقع پر فیصلہ‘ بہترین کام‘ بی جے پی قائدین اب خوف میں ہیں‘ تلنگانہ پولیس کو میں سلام پیش کرتاہوں“۔

جبکہ دوسرے قاری نے لکھا کہ ”ذرا تصویر کریں متاثرہ اس خوفناک حالات سے گذر ی ہوگی۔

مذکورہ خاطیوں کو بھی دھیرے دھیرے اور دردناک موت دینا چاہئے اور ا ن کے چیخنے او رچلانے کی آوازوں کو ریکارڈ کیاجانا چاہئے۔

اس ریکارڈنگ کا استعمال مستقبل کے مجرموں کے لئے وارننگ کے طور پر کیاجانا چاہئے تاکہ اس قسم کے جرائم کو روکا جاسکے۔ یوپی میں اس کا استعمال ا ب بھی کیاجاسکتا ہے۔

وہاں پر 90فیصد مرد بشمول پولیس والے عصمت ریزی کرنے والے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ شمالی ہندوستان سب سے زیادہ غیر تعلیم یافتہ اور پسماندہ ہے۔

انہیں یہ تک معلوم نہیں ہے کہ ”انصاف“ نام کا ایک لفظ بھی ہے۔اب شمالی ہندوستان میں امید پیدا ہوگئی ہے۔

کم سے کم جنوبی ہندوستان کے دستوں کو چاہئے وہ ناکام شمالی ریاستوں میں مداخلت کریں اور کارگرد کاروائیاں انجام دیں۔ اس سے دو فائدے ہوں گے۔

پہلا عصمت ریزی کرنے والوں کو سزا ملے گی اور مقدمہ بند ہوجائے گا دوسرا ناخواندہ اور ناکام حکومتوں وک انصاف دلانے کا ایک سبق ملے گا اور اس بات کو سیکھنے کا موقع ملے گا کہ کوئی جرم ہونے سے قبل موثر سکیورٹی کیسے فراہم کی جائے گی“۔

ایک او رنے لکھا کہ”وہ لوگ قابل تشویش ہیں جو عدالت سے انصاف کی حمایت کررہے ہیں‘ ہم بھی عدالتوں سے انصاف کے خواہاں ہیں اور فیصلہ اسی کے مطابق ہونے چاہئے۔

مگر اس انکاونٹر نے ثابت کردیا ہے کہ ہر کوئی تیزی کے ساتھ انصاف چاہتا ہے اور پولیس اس سمجھ کے ساتھ یہ فیصلہ لی ہے کہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ عصمت ریزی کے کسی بھی معاملہ میں کاروائی کی جانی چاہئے۔

ان انکاونٹرس کا میں احترام او رحمایت کرتاہوں۔

اس انکاونٹر نے یہ مثال قائم کردی ہے کہ دیگر ریاستوں میں اس طرح کے جرائم کے لئے لو گ پانچ سالوں تک جیسا انتظار کرتے ہیں ویسا حیدرآباد کی عوام انتظار ہر گز نہیں کرسکتی ہے“۔

ایک نے لکھا کہ ”نتیجے سے میں خوش ہوں مگر طریقے سے نہیں۔عدالت کو ایسا ہی فیصلہ سنانا چاہئے تھا“۔ وہیں ایک اورنے لکھا کہ ”پولیس نے فرضی انکاونٹرانجام دیا ہے۔ تشدد کو جواب تشدد نہیں ہوسکتا ہے“۔