دین اسلام کی آفاقیتملت کی شیرازہ بندی اہل علم و دانش کی اولین ذمہ داری

   

اسلام ، دین فطرت ہونے کے ساتھ ، آفاقی نیز جامعیت کا حامل مذہب ہے ، فطرت ، آفاقیت اور جامعیت ایسے کمالات ہیں جن کی عظمت، وسعت ، تنوع اور گہرائی کو سمجھنا دشوار ہے ۔
فطرت کے مطابق ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام پر عمل کرنا فطری و طبعی اُمور کی طرح آسان و سہل ہے ، اس کے بنیادی و اساسی احکامات کی تکمیل میں کسی قسم کی دقت و پیچیدگی نہیں ہے ۔
آفاقیت کامفہوم یہ ہے کہ وہ ساری انسانیت کیلئے بلا لحاظ رنگ و نسل ، ملک و وطن قابل عمل ہے ، وہ کسی مخصوص زبان و مکان سے محدود نہیں ، اس کو جغرافیائی حدود میں مقید نہیں کیا جاسکتا ، اس کی تعلیمات و احکامات قیامت تک کی ساری انسانیت کیلئے بہ یک وقت یکساں و قابل نفاذ ہیں۔
جامعیت سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک ایسا جامع دین ہے جس کے دامن میں دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں و خوبیاں موجود ہیں ، کوئی بنیادی خوبی اور کمال ایسا نہیں جو اس میں داخل نہ ہوں اور کوئی شر اور برائی ایسی نہیں جو اس سے خارج نہ ہوں ۔
یہ دین رب العلمین کا پسند فرمودہ ہے ، ذات واجب الوجود نے اس کو مقرر فرمایا ہے جو کل جہانوں کا پالنہار ہے ، اس کے کمالات ، اختیارات، تصرفات کی کوئی حد اور انتہاء نہیں جس طرح اس کی ذات وحدۂ لاشریک ہے ، ’’لیس کمثلہ شئی‘‘ (اس کے جیسی کوئی چیز نہیں ) اس کی شان ہے ، اسی طرح اس کا دین بھی دنیا کے تمام ادیان میں بے مثل و بے مثال ہے ۔ یہ دین درحقیقت کمالات الٰہیہ کا نمونہ ہے ، یہ دین جس طرح ساری انسانیت کو اس کے خالق و مالک سے جوڑتا ہے ۔ اسی طرح تمام بنی نوع انسانی کو باہم ایک د وسرے سے مربوط کرتا ہے اور خالق کائنات کی پیدا کردہ ہرچیز سے عدل و انصاف کی ترغیب دیتا ہے ، جس میں عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ، گورے کو کالے پر کوئی امتیاز نہیں ، رنگ، نسل ، زبان کی کوئی تفریق نہیں ، کامیابی ، سعادت ، فلاح ، نجات اور اکرام کا معیار صرف اور صرف تقوی و پارسائی پر ہے ۔
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے مخلوق تک اپنے پیغام کو پہنچانے کے لئے ایک جامع کلام کو قرآن مجید کی شکل میں نازل فرمایا جو تاقیامت ساری انسانیت کی رہنمائی کے لئے کافی ہے ۔ اس میں ایسی جامعیت اور تنوع ہے کہ وہ تاقیامت آنے والی ہر قوم و نسل کی یکساں طورپر رہنمائی کرتی ہے ، اس کے معانی مفاہیم اور مضامین کبھی ختم ہونے والے نہیں ، وہ بلاشبہ خدا کی شان علمی کا شاہکار ہے ’’اﷲ تعالیٰ کے کلمات ختم نہیں ہوتے ‘‘ اس کا امتیاز وہ ساری انسانیت کی فلاح ، بہبود کی ضامن ہے ۔
یہ پہلا سبق ہے کتاب ھدی کا
کہ مخلوق ساری ہے کنبہ خدا کا
خدائے وحدہٗ لا شریک کے پہلے و آخری کامل و جامع دین کو Promote کرنے کیلئے ایک ایسی ہستی کی ضرورت تھی جو کمالات الٰہیہ کی جامع ہو ، دین الٰہی کی تمام خصوصیات کی حامل ہو ، خدائی صفات و افعال کا مظہر اتم ہوں، کلام الٰہی کے اسرار و رموز ، معانی و معارف ، حقائق و دقائق کو اپنی ذات میں جذب کرکے ساری دنیا تک پہنچاسکتی ہو۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے اس دین کے اکمال و تکمیل کیلئے ساری مخلوقات میں سے ایک کامل ترین ہستی کو وجود بخشتا جو بلاشبہ مظہر حق ہیں ، کل کائنات کے لئے خدائے وحدہ لاشریک کے بے مثل و بے مثال خلیفہ ہیں ۔ جنھوں نے روئے زمین پر ایسا انقلاب بپا کیا کہ تاریخ انسانیت جس کی نظیر سے عاجز ہے۔ انھوں نے دس سال کے عرصہ میں اسلامی حکومت کی ایسی مضبوط داغ بیل ڈالی کہ قیامت تک اس کی بنیاد متزلزل ہونے والی نہیں ، وہ کل جہانوں کے لئے رسول بھی ہیں ، قانون داں بھی ، حکمراں بھی ہیں ، جرنیل بھی ، قائد بھی ہیں ، معلم انسانیت بھی ، مربی کائنات بھی ہیں ، مورخ دوراں بھی ، ہزارہا صفحات پر مشتمل فرمودات کے واحد مصدر بھی ہیں ۔ وہ بشر ہیں جنھوں نے حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے لیکر قیامت تک اور مابعد القیامۃ سب کے بارے میں تفصیلات بیان کیں۔ اور خالق کائنات نے اپنے آفاقی دین کو رحمۃللعلمین کیلئے کامل اور مکمل فرمادیا اور آپ ﷺکو ’’خاتم النبیین ‘‘ بناکر مبعوث فرمایا ، سلسلہ نبوت کو ختم کردیا ، اب کوئی نبی آنے والے نہیں اور نہ ضرورت باقی ہے۔
ارشاد الٰہی ہے ، ترجمہ :’’ آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طورپر راضی ہوگیا‘‘ ( سورۃ المائدۃ )
واضح رہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے دین اسلام کی تکمیل فرمادی ، کسی قسم کے تکمیلہ کی ضرورت نہ رہی علاوہ ازیں علماء و مفسرین اور فقہاء و محدثین کی حفظ احادیث علوم شرعیہ کے استنباط و استخراج کے ضمن میں جو ناقابل یقین خدمات رہی ہیں وہ دین اسلام کی تکمیل کیلئے قطعاً نہیں بلکہ وہ محض تشریح توضیح ، تفھیم اور تعین کے لئے ہے ۔ نیز آپ ﷺنے اس مشن کو آگے بڑھانے کیلئے ایک فوج کو تیار کیا جنھوں نے شرق و غرب میں اسلام کے پرچم نصب کئے اور پیغام الٰہی کی دعوت و تبلیغ کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ آپ ﷺکے خلفاء و صحابہ آپ کے فیض یافتہ اور کمالات نبوت سے غایت درجہ مستفید ہوئے تھے ۔ انھوں نے اس آفاقی اور جامع دین کی نشر و اشاعت میں بھرپور حصہ ادا کیا ۔ یہاں تک کہ اسلام تن آور مضبوط درخت کی شکل اختیار کرگیا ۔ بعد ازاں ایسے عظیم ، آفاقی اور تنوع کے حامل دین کی ہر موڑ و میدان میں رہنمائی کے لئے جس عالمگیر جامعیت کی ضرورت درکار ہے وہ مفقود ہوتی گئی اس لئے کہ دین اسلام کی جامعیت ، آفاقیت کو جذب کرکے تنہا دنیا تک پہنچانا قدر سے ماوراء ہے اس لئے ایک ایک جماعت ، ایک ایک بار گراں کے لئے مخصوص ہوگئی ، کسی نے حفظ قرآن پر توجہ دی ، کسی نے علوم قرآن پر ، کسی نے علوم حدیث پر ، کسی نے فقہ و اصول پر ، کسی نے سیاسی میدان کا انتخاب کیا ، کوئی درس و تدریس سے جڑگیا ، کسی نے وعظ و نصیحت کو اختیار کیا ، کسی نے دعوت و تبلیغ کو اپنایا ، کسی نے تزکیہ و تربیت پر توجہ کی ۔ غرض ہر ایک نے اپنے علم ، تجربہ ، نظریہ اور رجحان کے مطابق قوم و ملت کے لئے جس چیز کو زیادہ مناسب و موزوں جانا اس کو اختیار کرلیا اور اس کی ادائیگی میں کھوگیا۔ اگر کوئی ایک فریق یہ تصور کرے کہ وہ جو خدمات انجام دے رہا ہے وہی عین خدمت دین ہے اور دوسرے غیراہم ہیں تو کس قدر غیرمعیوب بات ہوگی ۔ دین اسلام جیسے جامع و لچکدار دین میں کسی مخصوص نظریات کو اختیار کرکے دوسرے نظریات کو باطل سمجھنا ناقابل فہم ہے ۔ آمین بالجھر اور رفع یدین میں اختلاف ہے لیکن آخرت میں نجات اس پر موقوف نہیں ۔
اُمت اسلامیہ کے زوال کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اس کے علماء نے تمام تر مساعی باہمی اختلافات کو ہوا دینے میں صرف کر رکھی ہے اور اپنے فرض منصبی ( اوامرو نواھی ) سے بالکل بے بہرہ ہوچکے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپس کے باہمی اختلافات منظرعام پر نہ لاکر عامتہ المسلمین کی شیرازہ بندی پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے ۔ علماء و فضلاء کی تمام تر مساعی دین حق کی تبلیغ و اشاعت میں ہونی چاہئے جوکہ ہم سب کا فرض منصبی ہے ۔ قطع نظر اس کے ہم کسی جماعت یا فرقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا کہیں مہِ کامل نہ بن جائے