ذکرِ ولادتِ مصطفیٰؐ اور ماہِ ربیع الاول کے تقاضے

   

رسول اللہﷺ سے حضرات صحابہ کرام کی محبت کسی ثبوت کی محتاج نہیں، چشمِ فلک نے رسول اللہﷺ کے خدام وجاںنثاران جیسے صاحبِ کمال افراد نہیں دیکھے۔ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ الکریم سے کسی نے پوچھا کہ: ’’آپ (صحابہ کرام ؓ) کو رسول اللہﷺ سے کس قدر محبت تھی؟۔سیدنا علی ؓنے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ ہمیں اپنے اموال، اولاد، باپ، داد اور ماؤں سے بھی زیادہ محبوب تھے۔ کسی پیاسے کو ٹھنڈے پانی سے جو محبت ہوتی ہے، ہمیں رسول اللہﷺ اُس سے بھی بڑھ کر محبوب تھے۔‘‘
اسی لیے سیدنا ابوسفیان ؓنے اسلام لانے سے قبل حضراتِ صحابہؓ کی جاںنثاری کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا کہ دوسروں سے ایسی محبت کرتا ہو جیسی محبت اصحابِ محمد‘ محمدﷺسے کرتے ہیں۔‘‘ (معرفۃ الصحابہؓ ) 
مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں:’’دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہوگا، جیساکہ صحابہ کرام نے اللہ کے رسولﷺ سے راہِ حق میں کیا، انہوں نے اس محبت میں وہ سب کچھ قربان کر دیا، جو انسان کرسکتا ہے اور پھر اس راہ سے انہوں نے سب کچھ پایا جو انسانوں کی کوئی جماعت پاسکتی ہے۔‘‘۔ شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں : ’’صحابہ کرام برہنہ تلوار کے آگے خود کو پیش کردیتے تھے، کیونکہ وہ محمد مختارﷺ کی محبت میں بے خود ومدہوش تھے۔‘‘
رسول اللہﷺ سے تمام تر محبت کے باوصف ان حضرات کی مقدس زندگیوں سے کوئی ایک مثال ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ عشق کی وارفتگی اور سرمستی میں وہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے ہوں اور اظہارِ محبت کے نت نئے انداز وضع کرنے لگے ہوں۔ اطاعت کس طرح محبت کے بے محابا اظہار کی راہ میں کھڑی ہوکر حقیقی عشق کا ثبوت پیش کرتی ہے، اس کی صداقت صحابیِ رسول ؐ سیدنا حضرت انسؓ کے ایک بیان سے ملاحظہ فرمایئے، وہ فرماتے ہیں:’’ہمیں رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی سے بڑھ کر کوئی بھی محبوب نہ تھا، مگر ہم آپﷺ کے لیے کھڑے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ ہم جانتے تھے کہ یہ بات آپﷺ کو پسند نہیں ہے۔‘‘(جامع الترمذی)
دین کیلئے لازم ہے کہ شریعت‘ احوال وکیفیات اور مابعد الطبعیات پر غالب اور حَکَم رہے۔ مقصودِ شریعت رضائے حق کے اسباب میں خلل اندازی سے حفاظت ہے۔ اور محبوبِ خدا ﷺ کی طبعی محبت کے علاوہ تشریعی اُمور میں مکمل اتباع واطاعت کا نام ہی حقیقی محبت ہوسکتا ہے، اسی لیے حضراتِ فقہاء ؒ جو رمز آشنائے شریعت ہیں، فرماتے ہیں کہ: التزام خواہ اعتقادی ہو یا عملی، دونوں کیلئے اذنِ شریعت ضروری ہے اور یہی مسلک محقق صوفیہ کا ہے۔ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں : ’’سعدیؒ! اس گمان میں مت رہنا کہ راہِ اخلاص حضرت محمد مصطفیٰؐ کی اتباع کے بغیر طے ہوسکتی ہے، جو شخص رسول اللہﷺ کے خلاف راستہ اختیار کرے گا، کبھی منزلِ مراد تک نہ پہنچ سکے گا۔‘‘آپﷺ کی ولادت سے لے کروصال تک ایک ایک واقعے کا ذکر اور رُخِ مصطفیﷺ کی ایک ایک جھلک کا تذکرہ سرمۂ چشمِ بصیرت، رحمتِ الٰہی اور برکاتِ ربانی کے نزول کا موجب ہے۔ ایک مسلمان کیلئے تو رسول اللہﷺ سے وابستہ ومتعلق اشیاء کا تذکرہ بھی عین عبادت ہے، خواہ ان کی ظاہری حیثیت کیسی ہی فروتر کیوں نہ ہو۔ جب رسول اللہﷺ سے نسبت رکھنے والی چیزوں کا تذکرہ عین عبادت ہوا تو آپؐ کا ذکرِ ولادت کیوں باعثِ تسکینِ ایمان نہ ہوگا؟ دنیا کا کوئی مسلمان، خواہ اس کا تعلق کسی مکتبِ فکر سے ہو، آپﷺ کے ذکرِ ولادت اور اس ماہِ مقدس سے جب آپﷺ عالمِ قدس سے عالمِ امکان میں رونق افروز ہوئے تَنفُّر اختیار نہیں کرسکتا۔

امام اہلِ سنت مولانا عبد الشکور لکھنویv (متوفی:۱۳۸۳ھ) النجم، لکھنو، دورِ جدید، ربیع الاول ۱۳۵۰ھ میں لکھتے ہیں:
’’بعض جُہلاء نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ مسلمانوں کا کوئی گروہ حضور انورﷺ کے ذکرِ مولد شریف کو بدعت کہتا ہے۔میرے خیال میں وہ مسلمان‘ مسلمان ہی نہیں جو حضورِ پاکﷺ کے تذکرے کو منع کرے یا برا کہے۔ مولد شریف کا بیان طبعاً اور شرعاً ہر طرح سے عبادت ہے، بلکہ ہم خستہ جانوں کے لیے یہی تذکرہ باعثِ بالیدگیِ حیات اور غذائے روح ہے۔ جو شخص آپﷺ کے ذکر شریف کو منع کرے، یا بدعت قرار دے ہمیں اس کے خارج از اسلام ہونے میں ذرہ بھر کلام نہیں۔‘‘
(محمد عبد الحی فاروقی، علامہ عبد الشکور لکھنویؒ: حیات وخدمات، لاہور:ادارہ تحقیقاتِ اہل سنت، ۲۰۰۹ئ، ص:۶۰۰-۶۰۱)
رسول اللہﷺ کی ولادت وطفولیت کے واقعات کا بیان ایمان کی پختگی اور رُسوخ کا ذریعہ اور شروع سے صحابہ کرامs اور سلفِ صالحین سے ثابت ہے۔ باعثِ نزاع تو مروجہ محافلِ میلاد ہیں، جسے پہلے ’’میلادُ النبیؐ ‘‘ اور اب ’’عیدِ میلاد‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ رسول اللہﷺ کا یومِ ولادت ہرسال آتا تھا، لیکن حضراتِ صحابہؓ سے لے کر چھٹی صدی تک التزاماً محافلِ میلاد کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا، حالانکہ اُس کے اسباب ومحرکات سب موجود تھے۔ ویسے لوگوں میں آنحضرتﷺ کی ولادت وطفولیت اورمعجزات وخصائص کا تذکرہ رہے تو یہ کوئی امرِ نا مشروع نہیں، بلکہ مندوب، جائز اور مستحسن ہے۔ جب تک اس سلسلے میں افراط وتفریط نہیں تھی، اہلِ سنت کے یہاں ولادتِ نبوی (l) کا تذکرہ مباح ومستحب حیثیت سے تاریخی حقیقت کے طور پر کیا جاتا تھا۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویv (متوفی:۱۳۶۲ھ) فرماتے ہیں کہ:
’’حضرت مولانا شاہ فضل رحمن صاحب گنج مراد آبادی قدس سرہٗ[ متوفی:۱۳۱۳ھ] سے کسی نے کہا: حضرت! مولود سننے کو جی چاہتا ہے، فرمایا: لو ہم اَبھی سناتے ہیں، یہ کہہ کر کھڑے ہوئے اور نہایت مزے سے یہ شعر پڑھا:
تر ہوئی باراں سے سوکھی زمیں
یعنی آئے رحمۃ للعالمینa
(اشرف علی تھانویؒ، مواعظِ میلاد النبیؐ، لاہور، المکتبۃ الاشرفیہ، ۱۹۹۲ئ، ص:۲۲۶۔۲۲۹)
مولانا نے بتلادیا کہ ہم ذکرِ ولادت کے منکر نہیں، بلکہ تخصیصات وقیودات کے منکر ہیں۔
رفتہ رفتہ اس میں قیود لگتی گئیں، اہتمام وانصرام بڑھتا گیا اور مسئلہ اباحت واستحباب سے وجوب تک لے جایا گیا اور حق وباطل کے مابین نشانِ امتیاز بنادیاگیا، ان محافل کا تارک‘ رسول اللہa کا گستاخ اور دائرۂ سُنیت سے خارج قرار دیا جانے لگا۔ قاضی فضل احمد صاحب اپنی کتاب ’’انوارِ آفتابِ صداقت‘‘ جو مولانا احمد رضا خان بریلوی مرحوم سمیت چالیس بریلوی علماء کی مصدقہ ہے، میں فرماتے ہیں:
’’پہلے زمانے میں مولود شریف کا کرنا صرف مستحسن یا مستحب اور مسنون تھا، لیکن اب اس زمانے میں (علماء نے) اس کو ضروری تصور کرکے فرضِ کفایہ تحریر فرمایا ہے۔‘‘ (ص:۳۹۸)
مباح، سنت، واجب اور فرض یہ سب شرعی درجات ہیں، جن کا تعین شریعت ہی کر سکتی ہے، امرِ مستحب کو اصرار سے وجوب کے درجے تک لے جانا نہایت سنگین جسارت اور مداخلت فی الدین ہے۔ علامہ ابراہیم حلبیv (متوفی:۷۳۵ھ) علامہ طیبیv (متوفی:۷۴۳ھ) حافظ ابن حجر عسقلانیv (متوفی:۸۵۲ھ) علامہ ابن نجیمv (متوفی:۹۶۹ھ) علامہ طاہر پٹنیv (متوفی: ۹۸۶ھ) اور ملا علی قاریv (متوفی:۱۰۱۴ھ) کی تصریحات دیکھنے والے جانتے ہیںکہ یہ سب حضرات قاطبۃً اس پر متفق رہے ہیں کہ شریعت کے کسی حکم کو اس کے درجے سے اوپر نہیں لایاجاسکتا، مندوبات اپنے مرتبے سے اوپر اُٹھا دینے سے مکروہات بن جاتے ہیں۔
دین جذبات کا نام نہیں ہے، رسول اللہﷺ سے غایت درجے عشق ومحبت کے اظہار کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا دائرہ ضد اور معکوس تک وسیع کردیا جائے۔ حقیقی محب‘ کامل متبع ہوتا ہے، وہ محبت کی روانی اور جوش وخروش میں فکر وہوش کا دامن نہیں چھوڑتا، بلکہ محب کے اظہار کے سب طریقے محبوب کے مزاج کی رعایت اور مطاع کے بیان فرمودہ آداب وہدایات کے تحت ہی بجالاتا ہے، اس میں اپنی طرف سے اضافے یا ازالے کو روانہیں جانتا، اُسے معلوم ہے کہ نگاہِ محبوب میں اِضافہ ’’بدعت‘‘ ہے اور اِزالہ ’’الحاد‘‘ ہے۔ حضرت ملا علی قاریv (متوفی:۱۰۱۴ھ) لکھتے ہیں:
’’والمتابعۃ کما تکون فی الفعل تکون فی الترک أیضاً ، فمن واظب علٰی فعل لم یفعلہ الشارع فہو مبتدع۔‘‘ (ملا علی قاریؒ، مرقات المفاتیح، ملتان: مکتبہ امدادیہ، س-ن، جلد:۱، ص:۴۱)
’’اور پیروی جس طرح کسی کام کے کرنے میں ہوتی ہے، اسی طرح کسی کام کے نہ کیے جانے میں بھی ہوتی ہے، سو جو شخص کسی کام کو اہتمام سے کرے اور رسول اللہﷺ نے ایسا نہ فرمایا ہو تو وہ بدعتی ہے۔‘‘
آنحضرتﷺ کا ذکرِ ولادت ایک امر مستحب تھا۔ خود مولانا عبد السمیع صاحب رام پوری کو اعتراف ہے کہ حضراتِ صحابہؓ وسلفِ صالحین میں آپﷺ کے تذکرۂ ولادت کے باوجود امرِ اجتماعی کی کوئی شکل موجود نہ تھی، وہ صاف لفظوں میں اقرار کرتے ہیں:
’’حضرتﷺ نے ماہِ ربیع الاول میں کوئی عمل مقرر نہیں فرمایا۔‘‘
(انوارِ ساطعہ دربیانِ مولود وفاتحہ، مراد آباد، مطبع نعیمیہ، س-ن، ص:۱۷۰)