تھا برق کی زد میں تو سدا میرا نشیمن
گر جائے اگر بجلی تو ڈرتے ہو بھلا کیوں
ملک کی اٹھارہویں لوک سبھا میں آج ہنگامہ آرائی اور گہما گہمی دیکھی گئی ۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی کے قائد اپوزیشن کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ساری بی جے پی نے ان پر نظریں لگائی ہوئی ہیں اور انہیں نشانہ بنانے کیلئے اب اپنی ٹرول آرمی اور پیڈ ورکرس کا سہارا لینے کی بجائے خود وزیر اعظم نریندرمودی ‘ وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو میدان میں آنا پڑ رہا ہے ۔ راہول گاندھی بھی ایسالگتا ہے کہ ایک پرسکون اور نرم گفتار لیڈر کی بجائے اب اپنا جارحانہ روپ دکھانے لگے ہیں۔ آج لوک سبھا میں مباحث کے دوران راہول گاندھی نے جس تیور کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور اس کے قائدین کیلئے اب سکون مشکل ہوسکتا ہے کیونکہ راہول گاندھی پوری طرح سے جارحانہ موڈ میں آگئے ہیں اور وہ حکومت کو نشانہ بنانے کے معاملے میں اور اپنی بات کہنے کے معاملے میں نرم گفتار نہیں رہ گئے ہیں۔ وہ انتہائی سختی کے ساتھ اور اٹل انداز میں اپنی بات رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوگئے ہیں۔ جس طرح سے راہول گاندھی کو آج ایوان میں گھیرنے کیلئے نریندر مودی ‘ امیت شاہ اور راج ناتھ کو میدان میں آنا پڑا اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی قیادت اب خود راہول گاندھی کا جواب دینے پر آگئی ہے ۔ ہم نے سابقہ دو معیادوں میں دیکھا ہے کہ جب کبھی اپوزیشن کی صفوں سے کوئی بات کہی جاتی یا تنقید کی جاتی تو وزیر اعظم خاموشی اختیار کئے ہوتے اور وہ کسی تنقید کا راست جواب نہیں دیتے ۔ اس کی بجائے بی جے پی کے ارکان پوری شدت کے ساتھ اپوزیشن کے حوصلے پست کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ۔ وزیر اعظم عملا لا تعلقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرتے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے کہ اپوزیشن یا کسی اور جماعت کے رکن کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ تاہم آج کی صورتحال اس قدر مختلف دکھائی دی کہ وزیر اعظم نے خود دو مرتبہ راہول گاندھی کی تقریر کے دوران مداخلت کی کوشش کی اور اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی ایک موقع پر راہول گاندھی کی تقریر کے دوران مداخلت کی کوشش کی ۔
لوک سبھا انتخابات میں جس طرح سے بی جے پی کی عوامی تائید میں کمی آئی ہے اور یہ واضح ہوگیا کہ مودی کی مقبولیت کا گراف بڑی حد تک کم ہوگیا ہے اس سے پارلیمنٹ کے اندر کی صورتحال میں تبدیلی نظر آنے لگی ہے ۔ اپوزیشن جہاں گذشتہ دو معیادوں میں کمزور موقف میں تھی وہ بھی اب مستحکم موقف میں آگئی ہے ۔ خود کانگریس کے ارکان کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے ۔ دیگر جماعتوں کی عددی طاقت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور خاص طور پر سماجوادی پارٹی اور ترنمول کانگریس کے ارکان کی خاطر خواہ تعداد پارلیمنٹ پہونچ گئی ہے ۔ ایسے میںاپوزیشن کی جانب سے حکومت کو گھیرنے اور اسے نشانہ بنانے کی کوششیں بھی تیز ہونے لگی ہیں۔ ابتداء ہی سے یہ اشارے مل گئے ہیں کہ اپوزیشن حکومت سے اب خوفزدہ ہونے والی نہیں ہے اور اس کی خامیوں اور نقائص کو ایوان میں پوری شدت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ اسی طاقت کے بل پر راہول گاندھی بھی ایوان میںجارحانہ موقف اور کڑے تیور اختیار کررہے ہیں اور حکومت اب ان کو نظر انداز کرنے کے موقف میں قطعی نظر نہیں آتی ۔ ویسے بھی بی جے پی کی ساری قیادت راہول گاندھی کو نشانہ بنانے ہی میںمصروف رہتی تھی تاہم اب وہ ایک دستوری عہدہ پر فائز ہوگئے ہیں اور ایسے میں حکومت راہول گاندھی کی تنقیدوں اور الزامات کو مذاق کا موضوع نہیں بناسکتی اور نہ ہی ان کو نظر انداز کرسکتی ہے ۔ حکومت کو ان تنقیدوں اور الزامات کا ایوان یا ایوان کے باہر جواب دینا ضروری ہوگیا ہے ۔
خود نریند ر مودی ‘ امیت شاہ اور راج ناتھ سنگھ جیسے بی جے پی قائدین کو بھی یہ احساس ہوچلا ہے کہ اب راہول گاندھی کی تنقیدوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی انہیں ٹرول آرمی کے ذریعہ نشانہ بنانا کافی ہوگا ۔ اسی لئے خود یہ تینوں ہی راہول گاندھی کی تقریر کے دوران ایک سے زائد مواقع پر مداخلت کرتے نظر آئے ہیں۔ یہ حکومت کیلئے مسائل کا آغاز ہوسکتا ہے اورا پوزیشن کی صفوں میں اس صورتحال سے اعتماد میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ جو جماعتیں بی جے پی یا حکومت سے خوفزدہ تھیں اب وہ اپنے خول سے باہر آسکتی ہیں اور یہ صورتحال مودی اور ان کی حکومت کیلئے اچھی علامت نہیںہوسکتی تاہم جمہوریت کیلئے ضرور اچھی علامت ہے ۔