اعتکاف کا حکم قرآن کریم اور احادیث شریفہ سے ثابت ہے، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وَلَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَاَنْـتُـمْ عَاكِفُوْنَ فِى الْمَسَاجِدِ‘‘۔ بخاری شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، آپ فرماتی ہیں کہ حضور پاک ﷺنے رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں اعتکاف فرمایا اور آپﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد ازواج مطہرات اس پر کاربند رہیں اور اعتکاف کا اہتمام کیں۔
امام زہری لوگوں پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ اعتکاف جیسی عظیم عبادت چھوڑ دیتے ہیں، جب کہ نبی کریم ﷺ ابتداءً کبھی اس کا اہتمام فرماتے اورکبھی ترک فرمادیتے، لیکن آپﷺ نے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد اپنی وفات تک کبھی ترک نہیں فرمایا۔ (بدائع الصنائع)
بخاری شریف اور دیگر صحاح ستہ کی روایتوں سے واضح ہے کہ اعتکاف اُمت محمدیہ کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ اس کا اہتمام کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف باب الاعتکاف لیلًا میں ہے کہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ ٰعنہ نے حضور پاک ﷺ سے عرض کیا کہ ’’میںنے زمانہ جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک رات کے اعتکاف کی نذر کیا تھا‘‘۔ حضور پاک ﷺنے ارشاد فرمایا ’’تم اپنی نذر پوری کرلو‘‘۔ ایک اور روایت میں حضور ﷺ نے آپ کو اعتکاف کے ساتھ روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ (عمدۃ القاری)
مزید برآں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو احکام ملے تھے، اس میں یہ بھی حکم ہے کہ بیت اللہ شریف کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں کے لئے پاک رکھیں (سورۃ البقرہ) اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اعتکاف کا تصور اور حکم زمانہ قدیم ہی سے چلا آرہا ہے۔
اعتکاف کی فضیلت اور اس کی قدر و منزلت بے شمار ہے، کیونکہ بندہ اس دنیا میں دنیا کے تمام تعلقات اور اپنی تمام تر مصروفیات کو خیرباد کرکے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے، جان کو اس کے درپر ڈال دیتا ہے اور اپنے دل کو اس کے حوالے کردیتا ہے۔ پس اس کے اعضاء اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہوتے ہیں اور اس کی ہر سانس اللہ تعالیٰ کی یاد میں کٹتی ہے، گویا کہ بندہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے درپر سوالی بناکر ڈال دیتا ہے، گویا کہ جب تک اپنی مراد حاصل نہ ہو، اپنے ماتھے کو دربار الٰہی کی چوکھٹ سے نہیں اُٹھائے گا اور جب تک مغفرت اور رضائے الٰہی کا پروانہ نہ ملے دامن کو نہیں چھوڑے گا۔ بندے کے ان جذبات، وارفتگی اور دیوانگی پر رحمت الٰہی جوش میں آتی ہے، اس کو مراحم خسروانہ سے کئی سعادتیں اور سرفرازیاں نصیب ہوتی ہیں۔ چنانچہ حدیث پاک میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، حضور پاک ﷺنے ارشاد فرمایا کہ ’’معتکف گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اوراس کو اسی قدر نیکیاں عطا کی جاتی ہیں، جتنی کہ تمام قسم کی نیکیوں اوربھلائیوں کے کرنے والے کو دی جاتی ہیں‘‘۔ اس حدیث پاک میں معتکف کو دو عظیم بشارتیں دی گئی ہیں، ایک گناہوں سے محفوظ رہنا اور دوسری نیکیوں کا حاصل ہونا۔ یہی اصل شے ہے اور راہ سلوک کی کلید ہے کہ بندہ اپنے آقا و مولیٰ کی نافرمانی اور معصیت سے بچا رہے، اسی کو اصطلاح تصوف میں تخلیہ کہتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ٰکے فضل سے اس کو ان اعمال و افعال کی بھی نیکیاں ملتی ہیں، جو اعتکاف کی وجہ سے وہ نہیں کرسکتا، مثلاً مریض کی عیادت، نماز جنازہ میں شرکت۔ پس نیکیوں کے کرنے اور اسکے حاصل ہونے سے تصوف کے دوسرے جز کی تکمیل ہوتی ہے، جس کو ’’تخلیہ‘‘ کہتے ہیں۔
اعتکاف ایسی عظیم عبادت ہے، جو جلوت اور خلوت کے تمام منافع اور فوائد کی جامع اور دونوں کے مفاسد سے پاک ہے۔ اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان کا نفس مغلوب ہوتا ہے اور وقت کی حفاظت ہوتی ہے اور یہی دو چیزیں صوفیۂ کرام کا مقصود و مطلوب ہیں، جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول سے واضح ہے: ’’میں صوفیہ کی صحبت اور ان کی معیت میں دس برس رہا اور اتنے طویل عرصہ میں میں نے ان سے صرف دو ہی چیزیں حاصل کیں، نفس پر نگاہ رکھو اور وقت کا خیال رکھو‘‘۔اعتکاف میں انسان روزہ رکھتا ہے، بھوک و پیاس اور ترک خواہشات کی وجہ سے اس کا نفس کمزور و ناتواں ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مسجد کی نورانی فضاء اور عبادات و طاعات کے نورانی ماحول کے سبب نفس اپنی دسیسہ کاریوں اور مکر و فریب سے عاجز آجاتا ہے، نیز قلت اختلاط اور عوام سے کم ربط کی وجہ سے اپنے قیمتی اوقات کی حفاظت اور اس سے صحیح استفادہ ہوتا ہے۔ معتکف کو انتظار الصلٰوۃ بعد الصلٰوۃ کا ثواب ملتا ہے، نماز باجماعت تکبیر تحریمہ کے ساتھ ملتی ہے، نگاہ نامحرم کو دیکھنے سے محفوظ رہتی ہے، کان غیبت اور فحش کلام سننے سے محفوظ رہتے ہیں اور زبان کثرت کلام سے محفوظ رہتی ہے۔ بزرگوں اور نیک لوگوں سے نماز کے اوقات میں ملاقات ہوتی ہے، ان کے اعمال اور ریاضت کو دیکھ کر تواضع اور فروتنی پیدا ہوتی ہے اور اس میں شہرت کے شر سے بچتا ہے، جو گوشہ نشینی سے حاصل ہوتی ہے، بطور خاص شب بیداری کے ذریعہ شب قدر کی تلاش کا اجر و ثواب ملتا ہے۔