حیدرآباد۔کیا حیدرآباد کرکٹ اسوسیشن کے ذمہ داران آپسی جھگڑے سے باز آکر اس بات پر غور کریں گے کہ محمد سراج کو ایک مناسب تحفہ کے ساتھ ایک شاندارتہنیت پیش کریں جسکے وہ حقدار ہیں؟یہ وہ کام ہے جو جلد از جلد حیدرآباد میں ہونا چاہئے۔
ایک وہ بھی وقت تھا جب ہندوستان کے ٹسٹ ٹیم میں حیدرآباد سے پانچ کھلاڑی تھے۔ مگر اب صرف ایک سخت محنت کرنے والا تیز گیند باز ہے جو ہاتھوں میں پرچم تھامے ہندوستان کے لئے جدوجہد کررہا ہے۔
ایسی کئی ریاستی ادارے ہیں جو اپنی ریاست کے کھلاڑی کے ہندوستان ٹیم میں انتخابات پر اس کو اعزاز پیش کرتی ہیں۔ نہ صرف کرکٹ میں بلکہ دیگر اسپورٹس میں بھی یہ کام کیاجاتا ہے۔
اپنے کھلاڑیوں کے لئے ایک یادگار تحفہ فراہم کرنے کے مقصد سے وہ اسپونرس کو راغب کرتے ہیں۔
مگر ایچ سی اے نے سراج کے لئے کوئی بھی قابل ذکر کام نہیں کیاہے۔اسڑیلیا میں اپنے شروعات کھیل میں کامیابی کے بعد واپسی کے بعد ان کا حیدرآباد میں والہانہ خیرمقدم کیاجانا چاہئے تھا۔
یاپھر جب ڈبلیو ٹی سی کے فائنل میاچ میں ان کے انتخاب پر تہنیت پیش کی جانی چاہئے۔ دوبہتر ین مواقع گنوادئے گئے کیونکہ عہدیداروں نے یومیہ اساس پر وجہہ بتاؤ نوٹسیں ارسال کرنے میں مصروف ہیں۔د وسری جانب وہ ایک دوسرے پر کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کا دعوی کررہے ہیں۔
مگر حقیقت عمل سے زیادہ الفاظ میں دیکھائی دے رہی ہے۔انہوں نے اب تک کی کیاحوصلہ افزائی کی ہے؟ سراج کو نظر انداز کیاگیاہے۔
پچھلے ماہ اسٹار بلے باز وی وی ایس لکشمن نے ایک ماہرین رائے میں تیزگیند باز کی صلاحیتوں کے متعلق سیاست ڈاٹ کام کوبتایاتھا کہ سراج کا ہندوستان کرکٹ میں روشن مستقبل ہے۔
مگر ہر کھلاڑی کو اعتماد اورحوصلہ افزائی کے لئے کچھ شناخت کی ضرورت ہوتی ہے۔سراج کو یہ جاننااورمحسوس کرناضروری ہے کہ وہ اپنے ریاست میں ایک قابل فخر اور قابل احترام کھلاڑی ہیں۔
ایک تیز گیند باز کا کیریر زیادہ طویل نہیں رہتا۔سراج جس کا ’میاں میاجک“ پکارا جاتا ہے اب 27سال کے ہیں اور اپنابہترین مظاہرہ پیش کررہے ہیں۔
پانچ سال کے بعد وہ اس طر ح کا شاندارمظاہرہ کرتے ہوئے شائد نظر نہیں ائیں گے۔ یہی وقت ہے جس میں سراج کی حوصلہ افزائی کی جانے چاہئے اور امید ہے کہ وہ کچھ ایک ریکارڈس توڑیں گے اور ہر ایک کے زبان پرحیدرآباد کانام لائیں گے۔
حیدرآباد کی اسپورٹس میں ایک عظیم تاریخ ہے جس سے مشہور کھلاڑی غلام احمد‘ ایم ایل جئے سمہا‘ محمد اظہر الدین اور دیگر کئی کھلاڑی سامنے ائے ہیں۔
مگر اس ہنر کے میدا ن کی اس طرح حفاظت نہیں کی جارہی ہے جیسا کرنا چاہئے۔
ان حقائق کو یاد کرنا اور اس پر نظرثانی کرنے ذیلی ڈھانچوں بالخصوص ایچ سی اے کی ذمہ داری ہے۔
یہی وقت ہے کہ ایچ سی اے سراج کو کہہ کہ ”شاباش اسی طرح ملک او رریاست کا نام روشن کرتے ہوئے‘ ہم سب کی دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔