سماج میں ذات پات کی لعنت

   

کہاں ہیں، کہاں ہیں محافظ خودی کے
جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں
ہندوستان ایک ہمہ جہتی ملک ہے، یہاں کئی مذاہب کے ماننے والے رہتے بستے ہیں، سینکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہر علاقہ اور شہر کی روایات ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں میں بھی روایات بہت مختلف پائی جاتی ہیں۔ ہر زبان الگ خطے میں الگ انداز سے بولی جاتی ہے۔ مذہبی اور سماجی تشخص ایک دوسرے سے مختلف پایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود بحیثیت مجموعی سماج میں بالکل مساوات بھی پائی جاتی ہیں۔ انفرادی طور پر منفرد ہونے کے باوجود مجموعی اعتبار سے یکسانیت کی مثال بھی ہندوستان ہی میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہی وہ روایات ہیں جن کی وجہ سے ہمارا ملک دوسروں سے بالکل منفرد اور بے مثال بن جاتا ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں ذات پات کی لعنت پائی جاتی ہے۔ چھوت چھات کا نظام آج بھی ہماری زندگیوں کو متاثر کررہا ہے۔ آج ساری دنیا نے بے مثال ترقی کرلی ہے ، ترقی کے اس سفر میں ہمارا ملک ہندوستان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ آج ہندوستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ ہمارے نوجوانوں نے اپنے علم و فن سے دنیا کو زیر کرنے کا ہُنر پالیا ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں ہندوستانیوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہیں منوالیا ہو۔ آج دنیا کی ہر بڑی کمپنی میں اعلیٰ ترین عہدوں پر ہندوستانی نوجوان خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کئی شعبوں میں دنیا کی قیادت ہندوستانیوں کے ہاتھ میں ہے اور یہ قابلِ فخر کارنامہ ہے۔ راکٹ سائینس سے لے کر معیشت تک، انفارمیشن ٹکنالوجی سے لے کر طِب کے شعبہ تک ہندوستان اور ہندوستانی کمپنیاں قابلِ فخر کارنامے انجام دے رہی ہیں۔ اس کے باوجود ذات پات کے بھید بھاؤ اور چھوت چھات سے ہمارا معاشرہ داغدار بھی ہورہاہے، یہ ایسی لعنت ہے جس سے ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ بے مثال ترقی کے باوجود ہم چھوت چھات کی لعنت کا خاتمہ نہیں کرپائے ہیں اور اعلیٰ و ادنیٰ ذات کی لعنت آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہماری صفوں میں پائی جاتی ہے۔ ٹاملناڈو کے تھینی ضلع میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس میں دلتوں اور پسماندہ طبقات سے بھید بھاؤ کیا گیا۔
ذات پات کے نام پربھید بھاؤ ایک قدیم اور فرسودہ روایت ہے۔ دلت اور پسماندہ طبقات صدیوں سے اس لعنت کا شکار بنائے جارہے ہیں۔ انہیں ان مندروں میں داخلہ نہیں دیا جاتا جو اعلیٰ طبقات کیلئے مخصوص ہیں۔ ایک برتن میں پانی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ گھروں میں داخل ہونے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ راستوں سے گذرنے پر پابندیاں ہیں، برتن چھونے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ گلی گلیاروں میں فاصلے رکھے جاتے ہیں۔ انہیں آرام کی اجازت نہیں، ان کے عصری سہولیات سے استفادہ پر بھی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ آج بھی سینکڑوں گاؤں ایسے ہیں جہاں دلتوں کو اچھی گاڑی استعمال کرنے پر پابندی ہے۔ گھوڑے پر بیٹھنے پر سزائیں دی جاتی ہیں۔ شادی اور دیگر تقاریب کو محدود کردیا جاتا ہے۔ دلتوں اور پسماندہ طبقات کی خواتین پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں، ان کی عزتوں سے کھلواڑ کیا جاتا ہے اور ان کا تقدس پامال کیا جاتا ہے۔ضرورت پڑنے پر ان کی خدمات بے دریغ حاصل کی جاتی ہیں۔ ان کے ووٹ پورے حق سے مانگے جاتے ہیں لیکن انہیں سماج میں برابری کا مقام دلانے کوئی بھی آگے نہیں آتا۔ انہیں سماج میں برابری کا رُتبہ نہیں دیا جاتا۔ بے مثال ترقی کے باوجود ان روایات کی برقراری ہندوستانی سماج کی ایک ایسی لعنت ہے جس کو اَب تک بھی ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔ اس سے ہندوستان کی ہمہ جہتی شبیہہ داغدار ہورہی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس لعنت کو ختم کیا جائے۔ سماج میں ذات پات کے نام پر بھید بھاؤ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی اگر ختم نہ کیا جاسکے تو ہماری ترقی بے معنیٰ ہوکر رہ جاتی ہے۔ فرسودہ خیالات کو ترک کرنا چاہیئے۔ سماج کے تمام گوشوں کو اس لعنت کے خلاف سرگرم ہوجانا چاہیئے۔ دنیا کا کوئی مذہب ایسی فرسودگی کی اجازت نہیں دیتا اور نہ یہ انسانی اقدار ہوسکتے ہیں۔ حکومتیں ہوں کہ سماجی تنظیمیں ہوں‘ سماجی مساوات کیلئے کام کرنے والے ادارے ہوں کہ مذہبی تنظیمیں ہوں ‘ سبھی کو اس لعنت کا خاتمہ کرنے کمر کس لینے کی ضرورت ہے اور تبھی ہندوستان حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ ملک کہلانے کا حقدار ہوگا۔