شیخ الاسلام حضرت مولانا ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: ’’تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا۔‘‘( (الکہف:۱۸)
جملہ اولیاء کرام بشمول حضور غوث الاعظم کا تذکرہ کرتے ہوئے عموماً ہمارے زیرِ نظر اُن کی کرامات ہوتی ہیں اور ہم ان کرامات سے ہی کسی ولی کے مقام و مرتبہ کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں صحیح اور درست اسلوب یہ ہے کہ ہم صرف اولیاء کاملین کی کرامات تک ہی اپنی نظر کو محدود نہ رکھیں بلکہ اُن کی حیات کے دیگر پہلوئوں کا بھی مطالعہ کریں کہ اُن کا علمی، فکری، معاشرتی، سیاسی اور عوام الناس کی خیرو بھلائی کے ضمن میں کیا کردار ہے؟حضور غوث الاعظم کی شخصیت مبارکہ ہمہ جہتی اوصاف کی حامل ہے۔ ان جہات میں سے کرامات صرف ایک جہت ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حضور غوث پاک کی تعلیمات کی طرف بھی متوجہ ہوں۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جن کے ہم نام لیوا ہیں اور پوری دنیا جنہیں غوث الاعظم دستگیر اور پیران پیر کے نام سے یاد کرتی ہے، ان کی تعلیمات کیا ہیں اور ان کے ہاں تصوف، روحانیت اور ولایت کیا ہے؟
ولایت، کرامت نہیں بلکہ استقامت کا نام ہے۔ حضور غوث پاک نے خود فرمایا اور جمیع اولیاء کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ رب العزت اپنے اولیاء و صوفیاء کو فرماتا ہے کہ مجھے کرامتوں کی ضرورت نہیں بلکہ کرامت تو تمہارے نفس کی طلب ہے۔ کرامتوں میں نفس مشغول ہوتا ہے، مزہ لیتا ہے، واہ واہ کرتا ہے۔ اللہ کی طلب تو استقامت ہے۔ اسی لئے اولیاء اللہ نے فرمایا:’’اِستقامت کا درجہ کرامت سے اونچا ہے‘‘۔ولایت، کرامت کو نہیں کہتے بلکہ ولایت، استقامت کو کہتے ہیں۔ جب کرامت کا بیان ہوتا ہے تو یہ اولیائے کرام کی شان کا ایک گوشہ ہے، جس سے ان کی کسی ایک شان کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کے اصل مقام کا پتہ استقامت سے چلتا ہے۔ کتاب و سنت کی متابعت اور استقامت ہی سے ولایت کا دروازہ کھلتا اور اس میں عروج و کمال نصیب بنتا ہے۔
حضور غوث الاعظم، آئمہ محدثین و فقہاء کی نظر میں
حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کا ایک عظیم اظہار ’’علم‘‘ کے باب میں بھی ہمیں نظر آتا ہے۔ عِلمِ شریعت کے باب میں ان سے متعلقہ بہت سے اقوال صوفیاء و اولیاء کی کتابوں میں ہیں اور ہم لوگ بیان کرتے رہتے ہیں مگر اس موقع پر میں سیدنا غوث الاعظم ؓکا مقامِ علم صرف آئمہ محدثین اور فقہاء کی زبان سے بیان کروں گا کہ آئمہ علم حدیث و فقہ نے ان کے بارے کیا فرمایا ہے، تاکہ کوئی رد نہ کر سکے۔ اس سے یہ امر واضح ہوجائے گا کہ کیا صرف عقیدت مندوں نے ہی آپؓ کا یہ مقام بنا رکھا ہے یا جلیل القدر آئمہ علم، آئمہ تفسیر، آئمہ حدیث نے بھی ان کے حوالے سے یہ سب بیان کیا ہے؟یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضور غوث الاعظم ؓنہ صرف ولایت میں غوث الاعظم تھے بلکہ آپؓ علم میں بھی غوث الاعظم تھے۔ آپ جلیل القدر مفسر اور امامِ فقہ بھی تھے۔ اپنے دور کے جلیل القدر آئمہ آپؓ کے تلامذہ تھے جنہوں نے آپؓ سے علم الحدیث، علم التفسیر، علم العقیدہ، علم الفقہ، تصوف، معرفت، فنی علوم، فتویٰ اور دیگر علوم پڑھے۔ آپؓ ہر روز اپنے درس میں تیرہ علوم کا درس دیتے تھے اور ۹۰ سال کی عمر تک یعنی زندگی کے آخری لمحہ تک طلبہ کو پڑھاتے رہے۔ قرآن مجید کی مذکورہ آیتِ مبارکہ (الکہف:۱۸) میں بیان کردہ علم لدنی کا اظہار آپؓ کی ذات مبارکہ میں بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔ بغداد میں موجود آپؓ کا دارالعلوم حضرت شیخ حمادؒ کا قائم کردہ تھا، جو انہوں نے آپؓ کو منتقل کیا۔ آپؓ کے اس مدرسہ سے ہر سال ۳۰۰۰ طلبہ جید عالم اور محدث بن کر فارغ التحصیل ہوتے تھے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتوحات کا راز
بہت عجیب تر بات جس کا نہایت قلیل لوگوں کو علم ہوگا اور کثیر لوگوں کے علم میں شاید پہلی بار آئے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب القدس فتح کیا تو جس لشکر (Army) کے ذریعے بیت المقدس فتح کیا، اس آرمی میں شامل لوگوں کی بھاری اکثریت حضور غوث الاعظم ؓکے تلامذہ کی تھی۔ گویا آپؓ کے مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ صرف متہجد ہی نہیں تھے بلکہ عظیم مجاہد بھی تھے۔سلطان صلاح الدین ایوبی کی آدھی سے زائد فوج حضور غوث الاعظم کے عظیم مدرسہ کے طلبہ اور کچھ فیصد لوگ فوج میں وہ تھے جو امام غزالی کے مدرسہ نظامیہ کے فارغ التحصیل طلبہ تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے چیف ایڈوائزر امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی حضور سیدنا غوث الاعظم کے شاگرد اور خلیفہ ہیں۔ آپؓ براہِ راست حضور غوث پاک کے شاگرد، آپؓ کے مرید اور خلیفہ ہیں۔ گویا تاریخ کا یہ سنہرا باب جو سلطان صلاح الدین ایوبی نے رقم کیا وہ سیدنا غوث الاعظم ؓکا فیض تھا۔
امام ابن قدامہ المقدسی ایک واسطہ سے علامہ ابن تیمیہ کے دادا شیخ ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ کے عقائد کے بعض معاملات میں بعد میں انتہاء پسندی آگئی۔ مجموعی طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ منکرِ تصوف تھے، حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ ان کے بعض معاملات میں، تشریحات و توضیحات میں انتہاء پسندی تھی، جن سے ہمیں اختلاف ہے مگر مجموعی طور پہ وہ منکرِ تصوف نہیں تھے، وہ تصوف کے قائل تھے، تصوف پر ان کا عقیدہ تھا، اولیاء، صوفیاء کے عقیدتمند تھے اور طریقہ قادریہ میں بیعت تھے۔علامہ ابن تیمیہ کے شیح کا نام الشیخ عزالدین عبداللہ بن احمد بن عمر الفاروثی ہے۔ بغداد میں انہوں نے سیدنا شیح شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت کا خرقہ پہنا۔ گویا ایک طریق سے ان کا سلسلۂ طریقت سہروردیہ ہو گیا۔آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ علامہ ابن تیمیہ کو ان کی وصیت کے مطابق دمشق میں صوفیاء کیلئے وقف قبرستان مقابرالصوفیہ میں دفنایا گیا۔ اس کو امام ابن کثیر نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘، امام ابن حجر عسقلانی نے ’’الدرر الکاملہ‘‘، امام ذہبی نے ’’العبر‘‘ اور کل محدثین جنہوں نے علامہ ابن تیمیہ کے احوال لکھے، تمام نے بلا اختلاف اس کو بیان کیا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ کے شیح، امام ابن قدامہ کے شاگرد تھے اور امام ابن قدامہ، حضور غوث الاعظم کے مرید تھے۔ علامہ ابن تیمیہ سیدنا غوث الاعظم ؓکے عظیم عقیدت مندوں میں سے تھے۔ علامہ ابن تیمیہ کی کتاب الاستقامۃ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں اولیاء و صوفیاء میں سے سب سے زیادہ محبت و عقیدت سے جس شخصیت کا نام علامہ ابن تیمیہ نے لیا وہ حضور سیدنا غوث الاعظم ہیں۔علامہ ابن تیمیہ، غوث الاعظم شیح عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کا نام اس طرح لکھتے ہیں:قطب العارفين ابا محمد بن عبد القادر بن عبد اﷲ الجيلی۔ ’’قطب العارفین (سارے عارفوں کے اولیاء کے قطب) سیدنا شیح عبد القادر الجیلانی‘‘۔یعنی وہ حضور غوث الاعظم کے نام کو اس طرح القاب کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جبکہ باقی کسی صوفی اور اولیاء میں سے کسی کا نام اس کے ٹائٹل کے ساتھ بیان نہیں کرتے۔ جس کا بھی ذکر کریں گے تو صرف اس صوفی یا ولی کا نام لکھ کر ان کی کسی بات کو نقل کریں گے۔
امام ابن حجر عسقلانی نے ’مناقب شیخ عبدالقادر جیلانی میں لکھا ہے کہ ستر ہزار کا مجمع ہوتا، اس زمانے میں (لاؤڈ سپیکر نہیں تھے) جو آواز ستر ہزار کے اجتماع میں پہلی صف کے لوگ سنتے اتنی آواز ستر ہزار کے اجتماع کی آخری صف کے لوگ بھی سنتے۔ اس مجلس میں امام ابن جوزی (صاحبِ صفۃ الصفوہ اور اصول حدیث کے امام) جیسے ہزارہا محدثین، آئمہ فقہ، متکلم، نحوی، فلسفی، مفسر بیٹھتے اور اکتسابِ فیض کرتے تھے۔سیدنا غوث الاعظم ؓایک مجلس میں قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر فرمارہے تھے۔ امام ابن جوزی بھی اس محفل میں موجود تھے۔ اس آیت کی گیارہ تفاسیر تک تو امام ابن جوزی اثبات میں جواب دیتے رہے کہ مجھے یہ تفاسیر معلوم ہیں۔ حضور غوث الاعظمؓ نے اس آیت کی چالیس تفسیریں الگ الگ بیان کیں۔ امام ابن جوزی گیارہ تفاسیر کے بعد چالیس تفسیروں تک ’’نہ‘‘ ہی کہتے رہے یعنی پہلی گیارہ کے سوا باقی انتیس تفسیریں مجھے معلوم نہ تھیں۔ امام ابن جوزی کا شمار صوفیاء میں نہیں ہے بلکہ آپؒ جلیل القدر محدث ہیں، اسماء الرجال، فن اسانید پر بہت بڑے امام اور اتھارٹی ہیں۔ سیدنا غوث الاعظم ؓ چالیس تفسیریں بیان کر چکے تو فرمایا:’’اب ہم قال کو چھوڑ کر حال کی تفسیروں کی طرف آتے ہیں‘‘۔جب حال کی پہلی تفسیر بیان کی تو پورا مجمع تڑپ اٹھا، چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہوئیں۔ امام ابن جوزی بھی تڑپ اٹھے۔ محدث زماں نے اپنے کپڑے پکڑ کر پرزے پرزے کر دیئے اور وجد کے عالم میں تڑپتی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپتے ہوئے نیچے گر پڑے۔ یہ امام ابن جوزی کا حال ہے۔
امام یافعی رحمۃ اللہ علیہ: امام یافعی (جن کی کتاب کی امام ابن حجر عسقلانی نے التلخیص الخبیر کے نام سے تلخیص کی) فرماتے ہیں:شرق تا غرب پوری دنیا سے علماء، فقہاء، محدثین، صلحا اور اہل علم کی کثیر جماعت اطراف و اکناف سے چل کر آتی اورآپ کی مجلس میں زندگی بھر رہتے، علم حاصل کرتے۔ حدیث لیتے، سماع کرتے اور دور دراز تک علم کا فیض پہنچتا۔امام یافعی فرماتے ہیں کہ سیدنا غوث الاعظم ؓکا قبول عام اتنا وسیع تھا اور آپ کی کراماتِ ظاہرہ اتنی تھیں کہ اول سے آخر کسی ولی اللہ کی کرامات اس مقام تک نہیں پہنچیں۔
حافظ ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ: علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد، حافظ ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ والنہایہ جلد ۱۲ص ۲۵۲پر کہتے ہیں کہ حضور غوث اعظم سے خلقِ خدا نے اتنا کثیر نفع پایا جو ذکر سے باہر ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ آپ کے احوال صالحہ تھے اور مکاشفات و کرامات کثیرہ تھیں۔
امام ابنِ رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ : امام ابن قدامہ اور ابن رجب حنبلی وہ علماء ہیں جو علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن القیم کے اساتذہ ہیں اور ان کو سلفی شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سلفی نہیں بلکہ غوث پاک کے مرید ہیں۔ لوگوں کے مطالعہ کی کمی ہے جس کی وجہ سے یہ غلط مباحث جنم لیتی ہیں۔
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ: امام ذہبی (جلیل القدر محدث) سیر اعلام النبلاء میں بیان کرتے ہیں کہ:’’کبائر مشائخ اور اولیاء میں اول تا آخر کوئی شخص ایسا نہیں ہوا جس کی کرامتیں شیخ عبد القادر جیلانی سے بڑھ کر ہوں‘‘۔
امام العز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ: شافعی مذہب میں امام العز بن عبد السلام بہت بڑے امام اور اتھارٹی ہیں۔ سعودی عرب میں بھی ان کا نام حجت مانا جاتا ہے۔ یہ وہ نام ہیں جن کو رد کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا۔ امام العز کا قول امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں بیان کیا کہ وہ فرماتے ہیں:’’آج تک اولیاء کرام کی پوری صف میں کسی ولی کی کرامتیں تواتر کے ساتھ اتنی منقول نہیں ہوئیں جتنی شیخ عبد القادر الجیلانی کی ہیں اور اس پر اتفاق ہے‘‘۔
امام یحییٰ بن نجاح الادیب رحمۃ اللہ علیہ: ابو البقا بیان کرتے ہیں کہ میں نے نحو، شعر، بلاغت اور ادب میں اپنے وقت کے امام یحییٰ بن نجاح الادیب سے سنا کہ میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی مجلس میں گیا، ہر کوئی اپنے ذوق کے مطابق جاتا تھا، میں گیا اور میں نے چاہا کہ میں دیکھوں کہ غوث الاعظم اپنی گفتگو میں کتنے شعر سناتے ہیں۔ وہ چونکہ خود ادیب تھے لہذا اپنے ذوق کے مطابق انہوں نے اس امر کا ارادہ کیا۔ صاف ظاہر ہے حضور غوث الاعظم اپنے درس کے دوران جو اشعار پڑھتے تھے وہ اپنے بیان کردہ علم کی کسی نہ کسی شق کی تائید میں پڑھتے تھے۔ درس کے دوران اکابر، اجلاء، ادبا اور شعراء کو پڑھنے سے مقصود بطور اتھارٹی ان کو بیان کرنا تھا تاکہ نحو دین، فقہ، بلاغت، لغت، معانی کا مسئلہ دور جاہلیت کے شعراء کے شعر سے ثابت ہو، یہ بہت بڑا کام ہے۔امام النحو والادب یحییٰ بن نجاح الادیب بیان کرتے ہیں کہ میں آپ کی مجلس میں گیا اور سوچا کہ آج ان کے بیان کردہ اشعار کو گنتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ میں دھاگہ ساتھ لے گیا کہ ہاتھ پر گنتے گنتے بھول جاؤں گا۔ جب آپ ایک شعر پڑھتے تو میں دھاگہ پر ایک گانٹھ دے دیتا تاکہ آخر پر گنتی کر لوں۔ جب آپ اگلا شعر پڑھتے تو پھر دھاگہ پر گانٹھ دے لیتا۔ اس طرح میں آپ کے شعروں پر دھاگہ پر گانٹھ دیتا رہا۔ اپنے کپڑوں کے نیچے میں نے دھاگہ چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ جب میں نے دھاگہ پر کافی گانٹھیں دے دیں تو سیدنا غوث اعظمؓ ستر ہزار کے اجتماع میں میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے دیکھ کر فرمایا:’’میں گانٹھیں کھولتا ہوں اور تم گانٹھیں باندھتے ہو‘‘۔یعنی میں الجھے ہوئے مسائل سلجھا رہا ہوں اور تم گانٹھیں باندھنے کے لیے بیٹھے ہو۔ کہتے ہیں کہ میں نے اسی وقت کھڑے ہو کر توبہ کر لی۔ اندازہ لگائیں یہ آپ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں آئمہ کا حال تھا۔
امام ابو محمد خشاب نحوی رحمۃ اللہ علیہ: امام الحافظ عبد الغنی المقدسی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس دور کے بغداد کے نحو کے امام ابو محمد خشاب نحوی سے کہتے ہوئے سنا کہ میں نحو کا امام تھا، غوث اعظم کی بڑی تعریف سنتا تھا مگر کبھی ان کی مجلس میں نہیں گیا تھا۔ یہ نحوی لوگ تھے، اپنے کام میں لگے رہتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن خیال آیا آج جاؤں اور سنوں تو سہی شیخ عبد القادر جیلانی کیا کہتے ہیں؟ میں گیا اور ان کی مجلس میں بیٹھ کر انہیں سننے لگا۔میں نحوی تھا، اپنے گھمنڈ میں تھا لہذا مجھے ان کا کلام کوئی بہت زیادہ شاندار نہ لگا۔ میں نے دل میں کہا:’’آج کا دن میں نے ضائع کر دیا‘‘۔بس اتنا خیال دل میں آنا تھا کہ منبر پر دوران خطاب سیدنا غوث الاعظم ؓمجھے مخاطب ہو کر بولے:اے محمد بن خشاب نحوی! تم اپنی نحو کو خدا کے ذکر کی مجلسوں پر ترجیح دیتے ہو۔ یعنی جس سیبویہ (امام النحو، نحو کے موضوع پر ’’الکتاب‘‘ کے مصنف) کے پیچھے تم پھرتے ہو، ہم نے وہ سارے گزارے ہوئے ہیں۔ آؤ ہمارے قدموں میں بیٹھو تمہیں نحو بھی سکھا دیں گے۔ امام محمد بن خشاب نحوی کہتے ہیں کہ میں اسی وقت تائب ہو گیا۔ آپؓ کی مجلس میں گیا اور سالہا سال گزارے۔ خدا کی قسم ان کی صحبت اور مجلس سے اکتساب کے بعد نحو میں وہ ملکہ نصیب ہوا جو بڑے بڑے آئمہ نحو کی کتابوں سے نہ مل سکا تھا۔
ان حوالہ جات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پتہ چلے کہ آئمہ حدیث و فقہ نے حضور غوث الاعظم کے علمی مقام و مرتبہ کو نہ صرف بیان کیا بلکہ آپؓ کو علم میں اتھارٹی تسلیم کیا ہے۔ مذکورہ جملہ بیان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کل امام کرامتوں کو ماننے والے تھے، اولیاء کو ماننے والے تھے اور سیدنا غوث الاعظم کے عقیدت مند تھے۔ یہ کہنا کہ حضور غوث الاعظم کے مقام و مرتبہ اور ان کے القابات کو اعلیٰ حضرت نے یا ہم نے گڑھ لیا ہے، نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ حدیث، فقہ، تفسیر اور عقیدہ کے کل آئمہ نو سو سال سے ان کی شان اسی طرح بیان کرتے چلے آئے ہیں۔