دوسری اور آخری قسط
مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم
شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے )ہندوستان کے دستور کے دفعات ۱۴ اور ۱۵ کے صریح خلاف ہے ‘نیز مذہبی و نسلی بنیادوں پر امتیاز و تعصب کی دستور میں کوئی گنجائش نہیں ہے ‘اور یہ منظورہ بل اقوام متحدہ کے منظورہ انسانیت نواز اُصولوں کے بھی خلاف ہے ‘ہندوستان اس قانون کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا ہے ‘ملک کے سیکولر شہریوں کے ساتھ عصری و دینی جامعات کے طلباء طالبات بھی اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہیں‘ملک بھر کے احتجاج کے اثرات بیرونی ممالک میں بھی دیکھے جارہے ہیں چنانچہ آکسفورڈ ‘ ہارورڈاور کولمبیا یونیورسٹیوں میں بھی اس قانون کے خلاف مظاہرے جاری ہیں ‘بین الاقوامی مذہبی آزادی کے امریکی سفیر نے بھی شہریت ترمیمی قانون سے پیدا ہونے والے مضمرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ حکومت ہند دستوری وعدوں کی تکمیل کرے گی جس میں مذہبی آزادی بھی شامل ہے ‘خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی ) ‘مشرق وسطیٰ کے ممالک سعودی عرب ‘ کویت ‘ متحدہ عرب امارات ‘ قطر ‘ بحرین اور عمان میں اس بل کی منظوری نے ہلچل پیدا کردی ہے ‘ اس کے خلاف غم و غصہ کا اظہار دیکھا جارہا ہے ‘ اس قانون کو واپس نہ لیا جائے تو امکان ہے کہ ان ممالک سے ہندوستان کے اقتصادی و معاشی اور دوستانہ روابط استوار نہیں رہ سکیں گے‘اقوام متحدہ میں بھی اب اس کی گونج سنی جارہی ہے ،امریکہ میں ہیومن رائیٹس واچ کے ایشیا ایڈوکیسی ڈائرکٹر جان سفٹن نے کہا کہ ۱۹۷۹ء میں ہندوستان نے شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی میثاق کی توثیق کی تھی جس میں واضح ہے کہ آپ لوگوں کو ان کی نسل، ان کے رنگ ، ان کی قومیت کی اساس پر ان کی شہریت سے محروم نہیں کرسکتے۔ اسی طرح ۱۹۶۷ء میں نسلی تعصب کی تمام شکلوں کو ختم کرنے سے متعلق بین الاقوامی کنونشن کی بھی دستخط اور توثیق کی تھی۔
الغرض اس بل کی منظوری سے پہلے اور کئی ایسے غیر آئینی قوانین (بلس)منظور کرالئے گئے ہیں جس سے دستور کی صریح خلاف ورزی ہوتی ہے ‘ اور ملک کے سیکولر کردار پر کاری ضرب لگتی ہے ‘ ووٹ بینک مضبوط کرنے کی غرض سے نفرت کی جو فضاء ملک بھر میں پیدا کی گئی ہے اس کی زد مسلم اور اس کے بعد دلت اقلیتوں پر پڑی ہے ‘نیز بی جے پی کے زیر اثر نادا ن و ناسمجھ بعض گروہ ملک بھر میں نفرت کا پرچار کررہے ہیں اور رام کے نام پر فساد مچارہے ہیں سیاسی سرپرستی کی وجہ شر و فسادقتل و غارت گری ان کا شیوہ بن گئی ہے ‘شرپسند عناصر دستوروآئین اور قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں‘ان کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے مسلسل عصمت ریزی و قتل وخون کے شرمناک واقعات انسانیت کے چہرے پر کالک پوت رہے ہیںایک جمہوری ملک میں خواتین کی عفت و عصمت ‘عزت و آبرواور ان کی زندگی دائو پر لگ گئی ہے ان کی فلاح و بہبود پر تو پہلے ہی سے سوالیہ نشان لگاہواہے‘ اس طرح ہمارا سیکولرملک آہستہ آہستہ جنگل راج کی طرف بڑھ رہا ہے‘بے روزگاری ‘مہنگائی اپنے عروج پر ہے ‘غربت و افلاس میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہے ‘الغرض ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے جو سنجیدہ منصوبہ بندی ہونی چاہئے اس میں چونکہ ہماری حکومت ناکامی کا شکار ہے اس لئے وہ وقفہ وقفہ سے ایسے اشوزIssues(مسائل) اٹھارہی ہے جوملک کو مزید تقسیم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں‘ موجودہ حکومت شائد اپنے مقاصد میں کامیابی کیلئے ملک میں مسلم و غیر مسلم کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہے اور ان میں بھید بھائو پیدا کرنے کی زہریلی مہم چھیڑ رکھی ہے ‘لیکن یہ بات یاد رہنی چاہئے کہ اس ملک پر جتنا حق غیر مسلم بردران وطن کا ہے اتنا ہی مسلم بھائیوں اور دیگر اقلیتوں کا بھی ہے ‘اس کو نظر انداز کردیا جائے تو ملک کے جمہوری کردار کی بحالی ‘ ملک کی ترقی و خوشحالی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا‘ا س لئے بلالحاظ مذہب وملت ملک کے تمام جمہوریت پسند شہری اس بل کے خلاف ہیں اور شدید پرامن احتجاج جاری رکھتے ہوئے اپنے غم و غصہ کا اظہار کررہے ہیں‘چونکہ بی جے پی کے ایجنڈہ میں ملک کو بتدریج ہند و توا کے رخ پر لے جانا ہے ا س لئے ملک کے تمام شہری اپنی شہریت کو لے کر فکر مند ہیں اور ان کا یہ بھی احساس ہے کہ ’’آج وہ کل تو ہماری باری ہے ‘‘ یہ وار آج مسلم اقلیت پر کیا جارہا ہے کل کو دلت بھائی پھر اس کے آگے سکھ بھائی بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں ‘اس طرح یہ سلسلہ اور آگے تک چل سکتا ہے ‘ اس لئے اس بل کی سارے شہری پرْزور مذمت کررہے ہیںاور حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اس بل کو واپس لے لے اور ایسے اشوز پر توجہ دے جو ملک کی سالمیت کو برقرار رکھنے کی ضمانت دیتے ہیں‘جن سے ملک میں امن و امان کی فضاء بنتی ہے خاص طور پرجمہوری ملک کے حکمرانوں کو مذہبی بنیادوں پر نہیں بلکہ انسانی بنیادوں پر رعایا کے ساتھ عدل و انصاف کرنے اور ان پر کسی بھی گوشہ سے ظلم ہوتا ہوتو اس کا تدارک کرنے ‘ان کیلئے روزگار کی فراہمی اور ان کی روزی روٹی ‘رہائش اورتعلیم وصحت بحیثیت مجموعی ساری رعایا کی خوشحالی ‘ملک میں امن و آمان کی برقراری اور اس کی ترقی و نیک نامی کو ہر قیمت پراولین ترجیحات میں شامل رکھنا چاہئے‘پھر ایک بار ملک کے باشعور شہری حکومت کے کارندوں سے خواہش کرتے ہیںکہ ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر نے سیکولر بنیادوں پر جو دستور و قانون مدون کیا ہے اور جس پر آزادی سے لیکر اب تک عمل درآمد ہے اسی پر عمل پیرا رہ کر ملک سے بھید بھائو و نفرت کی سیاست کا خاتمہ کریں او رملک میں امن و امان کی بحالی کو ہر حال میں ملحوظ رکھیں ‘حکومت کے ذمہ داروں ‘ اپوزیشن جماعتوں اور سارے شہریوں کو اس بات کیلئے فکر مند رہنا چاہئے کہ ہمارے ملک کے سیکولر کردار پر کوئی آنچ نہ آئے اور دنیا بھر میں اس ملک کی پالیسی کی جو سراہنا تھی وہ باقی رہے اور ملک کی نیک نامی علی حالہ برقرار رہے۔
ملک کے سیکولر کردار کو بحال رکھنے کیلئے ظلم کا خاتمہ ازحد ضروری ہے‘خواہ وہ ظلم حکمرانوں کی طرف سے ہورہا ہویا ملک دشمن غنڈہ عناصر کی طرف سے۔ ’’اللہ سبحانہ ‘‘کسی کی شخصی کمزوریو ںکا چرچہ کرنے کوسخت ناپسند کرتا ہے ‘الاّیہ کہ کوئی خاص دینی مصلحت ہو‘ ہاں البتہ مظلوم کو اس بات کی اجازت ہے ۔‘(النساء : ۱۴۸) اسلام جو دین حق ہے انسانیت نوازتعلیمات پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے اس کی روسے انسان کی شخصی و نجی کمزریوں کی تو پردہ پوشی کی جانی چاہئے لیکن ظلم کے خلاف علانیہ آواز اٹھانے کی اجاز ت ہے ورنہ ظالم کو ظلم سے باز رکھنے کی اور کیا تدبیر ہوسکتی ہے ‘ظلم کی تلافی کے احساس کو زندہ کرنا بھی اس کا ایک مقصد ہے تاکہ ظالم ظلم پر متنبہ ہوکر اس سے باز رہنے کی کوشش کرے ‘ ۔