شام میں ترک افواج کی کارروائی

   

جس قوم نے اسلام کو آزاد غیروں سے کیا
آج خود اپنوں کی ہے وہ کارروائی کا شکار
شام میں ترک افواج کی کارروائی
شام کے شمال مشرقی حصہ میں ترک افواج کی کارروائیوں نے دنیا کی بڑی طاقتوں کو ایک پیغام دیا ہے کہ اگر شام کی صورتحال پر عالمی طاقتیں یوں ہی خاموشی اختیار کرتی رہیں تو پھر شام کی یہ لڑائی پھر بار نئی شکل میں سامنے آئے گی۔ کردش فورسس کو سبق سکھانے کے لئے کی گئی ترک افواج کی کارروائی اور بہادر ی پر سب سے زیادہ پریشانی اُن ممالک کو ہوئی ہے جو شام میں اپنے مفادات کو تلاش کررہے ہیں۔ ترک افواج نے اس علاقہ پرچہارشنبہ کے دن یہ حملہ کرکے شام کی خودمختاری کو چیلنج کیا ہے تو اس پر بعض گوشوں سے تنقیدیں ہورہی ہیں۔ شام میں نہتے اور بے گناہ شہریوں پر بمباری بند کرنے کی اپیل کی گئی۔ سعودی عرب نے اپنے ردعمل میں یہ ظاہر کرانے کی کوشش کی کہ شام میں ترکی کی فوجی مداخلت عرب ملک کی وحدت، آزادی اور خود مختاری کی صریح خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔ شام میں اب تک جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو اموات کی تعداد افسوسناک حد تک بڑھی ہوئی ہے۔ شام میں کہیں بھی بمباری سے صرف انسانی جانوں کا اتلاف ہوتا ہے اور یہ اس خطے کی سلامتی و استحکام پر منفی اثرات بھی مرتب کریں گے۔ شام میں داعش یا دولت اسلامیہ کے خلاف آپریشن جاری رکھنے والوں کو ترکی کا یہ حملہ تشویشناک دکھائی دے رہا ہے۔ ترکی نے شام کے علاقہ میں واپس جانے والوں کے لئے ایک محفوظ زون قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ترکی فوج کی یہ کارروائی دراصل صدر ترکی رجب طیب اردغان کی منظوری سے ہی ہوئی ہے تو کردش فورس کی شام کے شمالی حصہ کے طرف پیشرفت سے روکنا ہے۔ کرد فورس اس علاقہ میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی کوشش میں ہے تو اس کو عالمی طاقتوں کو فوری حرکت میں آنے کی ضرورت تھی ۔ اس علاقہ میں ایک طویل عرصہ سے کردش فوج کے خطرات لاحق ہوتے رہے ہیں اور ترک شہریوں کو کرد فوج سے خطرات منڈلاتے رہے ہیں اور ترک شہریوں کو کرد فوج سے خطرات لاحق ہیں۔ ترکی اپنے شہریوں کے تحفظ کے لئے ہی کارروائی کررہا ہے تو وہ اپنے شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لئے قدم اُٹھارہا ہے۔ مقامی آبادی اس وقت ان مسلح طاقتوں کے نشانہ پر ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے میں پس و پیش نہیں کررہے ہیں۔ مسلح طاقت سے ترک شہریوں کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے تو شام سے متصل ترکی کی سرحد کی حفاظت کی بھی ایک کوشش ہوسکتی ہے۔ اقوام متحدہ ، امریکہ یا کوئی اور ملک شام میں دوہرا معیار اختیار کرتے ہیں تو یہ بڑی بدبختی کی بات ہوگی۔ شام میں دریائے فرات کے مشرق سے لے کر دریائے دجلہ کی مغرب تک پھیلے علاقہ کو محفوظ زون میں تبدیل کرنے سے کئی انسانی زندگیوں کو بچایا جاسکے گا۔ شام میں حالیہ برسوں خون ریزی کے واقعات نے ساری دنیا کو مغموم کردیا ہے ۔ اب ترکی کی فوج کے بعد عالمی طاقتوں کا بول اُٹھنا غور طلب ہے۔ شام کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے اب تاخیر نہیں ہونی چاہیئے۔ امریکہ نے شام کی اس کارروائی کے ردعمل میں یہ ضرور وضاحت کی کہ ان حملوں کیلئے اس نے گرین سگنل نہیں دیا۔ ویسے ترک افواج نے اس علاقہ سے امریکی فوج ہٹالئے جانے کے بعد کارروائی کی ہے کیونکہ اس کو بھی شام سے متصل سرحد پر قانون کی سیکورٹی کے اندیشے ہیں۔ امریکی ڈیفنس سکریٹری مائیک پامپیو نے صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے اس موقف کو دوبارہ دہرایا کہ امریکی فورس نے شام میں امن لانے کی کوشش کی ہے۔ اب امریکہ کی فوج یہاں سے واپس ہوچکی ہے تو حالات کس کروٹ لیں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔ داعش تنظیم کے نئے سرے سے اُبھرنے کا بھی اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ اب جبکہ ترک فوج نے کارروائی کی ہے تو ترک صدر رجب طیب اردغان کو بیان دیتے ہوئے عالمی غصہ کو سرد کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ امریکہ نے پہلے ہی انتباہ دیا ہے کہ اگر ترکی کی مداخلت بڑھتی ہے اور کرد آبادی کو ختم کردیا جاتا ہے تو یہ ترکی کی معیشت کو تباہ و برباد کردیں گے۔ چارلی برینسن کے معاملہ کے بعد سے ہی ترکی پر امریکہ کی معاشی پابندیاں ہیں ۔ اب مزید پابندیوں کی دھمکی دی جارہی ہے تو ترکی کو فی الفور سمجھ داری سے کام لینے کی ضرورت ہے۔