شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں

   

اسلام جس اعلی تہذیب کی دعوت دیتا ہے وہ اسی وقت وجود میں آسکتا ہے ، جب ہم ایک پاکیزہ معاشرہ تعمیر کرنے میں کامیاب ہوں اور پاکیزہ معاشرے کی تعمیر کیلئے ضروری ہے ہم خاندانی نظام کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور کامیاب بنائیں ۔ خاندانی زندگی کا آغاز شوہر اور بیوی کے پاکیزہ ازدواجی تعلق سے ہوتا ہے اور اس تعلق کی خوشگواری اسی وقت ممکن ہے جب شوہر اور بیوی دونوں ہی ازدواجی زندگی کے آداب و فرائض سے بخوبی واقف بھی ہوں ، اور ان آداب و فرائض کو بجالانے کیلئے پوری دلسوزی ، خلوص اور یکسوئی کے ساتھ سرگرم کار بھی ہیں، ذیل میں ہم پہلے ان آداب و فرائض کو بیان کرتے ہیں ، جن کا تعلق شوہر سے ہے اور پھر ان آداب و فرائض کو جن کا تعلق بیوی سے ہے۔ بیوی کے ساتھ اچھے سلوک کی زندگی گزاریئے ۔ اس کے حقوق کشادہ دلی کے ساتھ ادا کیجئے اور ہر معاملے میں احسان اور ایثار کی روش اختیار کیجئے ۔ عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ ، کیونکہ وہ تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں ۔ تمہیں ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ سوائے اس صورت کے جب ان کی طرف سے کوئی کھلی نافرمانی سامنے آئے ، اگر وہ ایسا کر بیٹھیں تو پھر خواب گاہوں میں ان سے علحدہ رہو اور پھر جب وہ تمہارے کہنے پر چلنے لگیں تو ان کو خواہ مخواہ ستانے کے بہانے نہ ڈھونڈو ، تمہارے کچھ حقوق تمہاری بیویوں پر ہیں اور تمہاری بیویوں کے کچھ حقوق تمہارے اوپر ہیں۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کو ان لوگوں سے نہ روندائیں ، جن کو تم ناپسند کرتے ہو اور تمہارے گھروں میں ایسے لوگوں کو ہرگز نہ آنے دیں، جن کا آنا تمہیں ناگوار ہو اور سنو ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہیں اچھلا کھلاؤ اور اچھا پہناؤ ۔ یعنی ان کے کھلانے پلانے کا ایسا انتظام کیجئے ، جو شوہر بیوی کے بے مثال قلبی تعلق اور جذبہ رفاقت کے شایان شان ہو ۔ جہاں تک ہوسکے بیوی سے خوش گمان رہے اور اس کے ساتھ نباہ کرنے میں تحمل ، بردباری اور عالی ظرفی کی روش اختیار کیجئے ۔ اس میں شکل و صورت یا عادات و اخلاق یا نگاہ رکھتے ہوئے فیاضی ، درگزر ، ایثار اور مصلحت سے کام لیجئے ، ’’ کوئی مومن اپنی مومنہ بیوی سے نفرت نہ کرے ۔ اگر بیوی کی کوئی عادت اس کو ناپسند ہے تو ہوسکتا ہے کہ دوسری عادت اس کو پسند آجائے ۔ ‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ہر خاتون میں کسی نہ کسی پہلو سے کوئی کمزوری ضرور ہوگی اور اگر شوہر کسی عیب کو دیکھتے ہی اس کی طرف سے نگاہیں پھیر لے اور دل برا کرلے تو پھر کسی خاندان میں گھریلو خوش گواری مل ہی نہ سکے گی ۔ حکمت کی روش یہی ہے کہ آدمی درگزر سے کام لے اور خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے عورت کے ساتھ خوش دلی سے نباہ کرنے کی کوشش کرے ۔ ہوسکتا ہے کہ خدا اس عورت کے واسطے سے مرد کو کچھ ایسی بھلائیوں سے نوازے ، جن تک مرد کی نظر نہ پہنچ رہی ہو ۔ مثلاً عورت میں دین و ایمان اور سیرت و اخلاق کی کچھ ایسی خوبیاں ہوں ، جن کے باعث وہ پورے خاندان کیلئے رحمت ثابت ہو یا اس کی ذات سے کوئی ایسی روح سعید وجود میں آئے ، جو ایک عالم کو فائدہ پہنچائے اور رہتی زندگی تک کیلئے باپ کے حق میں صدقہ جاریہ بنے یا عورت مرد کی اصلاح حال کا ذریعہ بنے اور اس کو جنت سے قریب کرنے میں مددگار ثابت ہو یا پھر اس کی قسمت سے دنیا میں خدا اس مرد کو کشادہ روزی اور خوشحالی سے نوازے ۔ بہرحال عورت کے کسی ظاہری عیب کو دیکھ کر بے صبری کے ساتھ ازدواجی تعلق کو برباد نہ کیجئے بلکہ حکیمانہ طرز عمل سے دھیرے دھیرے گھر کی فضاء کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنانے کی کوشش کیجئے ۔ عفو و کرم کی روش اختیار کیجئے اور بیوی کی کوتاہیوں ، نادانیوں اور سرکشیوں سے چشم پوشی کیجئے ۔ عورت عقل کے اعتبار سے کمزور اور نہایت ہی جذباتی ہوتی ہے ، اس لئے صبر و سکون ، رحمت و شفقت اور دلسوزی کے ساتھ اس کو سدھارنے کی کوشش کیجئے اور صبر و ضبط سے کام لیتے ہوئے نباہ کیجئے ۔ ’’ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلیوں میں سب سے زیادہ اوپر کا حصہ ٹیڑھا ہے ، اس کو سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر اس کو چھوڑے رہو تو ٹیڑھی ہی رہے گی ۔ پس عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔ (باقی سلسلہ آئندہ )