ضمانت مسترد ہونے پر شہباز شریف گرفتار

   

آصف زرداری پر فردِ جرم عائد، ہر مخالف آواز کو دبا نے کا عمران خان حکومت پر الزام

لاہور؍اسلام آباد ۔پاکستان کی قومی اسمبلی میں قائد اپوزیشن اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی منی لانڈرنگ اور اثاثہ جات کیس میں ضمانت مسترد ہونے پر قومی احتساب بیورو (نیب) نے اْنہیں گرفتار کر لیا ہے۔ دوسری جانب حزبِ اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور اْن کی ہمشیرہ فریال تالپور پر جعلی اکاونٹس کیس میں فردِ جرم عائد کر دیا گیا ہے۔لاہور ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے پیر کو آمدنی سے زائد اثاثے اور منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔اْس موقع پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ملزم کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ضمانت کے اخراج کے بعد نیب نے شہباز شریف کو احاطہ عدالت سے ہی گرفتار کر لیا۔ اسی اثنا میں عدالت کے باہر موجود مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے حکومت اور نیب کے خلاف نعرے بازی کی۔ اْس موقع پر کارکنوں اور پولیس میں ہاتھا پائی بھی ہوئی۔یاد رہے کہ شہباز شریف آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکینڈل اور رمضان شوگر مل کیس میں اکتوبر 2018 میں گرفتار ہو چکے ہیں جنہیں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر گزشتہ برس دونوں کیسز میں ضمانت پر رہائی ملی تھی۔مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے حکم پر نیب نے شہباز شریف کو گرفتار کیا ہے۔اْن کا کہنا تھا کہ ملک میں ہر مخالف آواز کو دبایا جا رہا ہے۔ شہباز شریف کی گرفتاری ‘کْل جماعتی کانفرنس’ کا ردِ عمل ہے۔اْن کے مطابق 2018 کی طرح گلگت بلتستان کے الیکشن میں دھاندلی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ وہ شہباز شریف کو گرفتار کر کے اپنے جھوٹے اور جعلی مینڈیٹ کو نہیں بچا سکیں گے۔ شہباز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) کے وفد نے اے پی سی میں جو بھی فیصلے کیے، مسلم لیگ (ن) کا ہر کارکن ان وعدوں پر ثابت قدم رہے گا۔تجزیہ کاروں کے مطابق شہباز شریف کی گرفتاری یقینی تھی جس کا حکومتی ترجمان کئی مرتبہ اشارہ دے چکے تھے۔سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سمجھتی ہے کہ عمران خان کا اگر کوئی متبادل ہے تو وہ شہباز شریف ہے کیونکہ اور بھی مفاہمانہ سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے تھے۔