طلباء کی خود کشیاں

   

ویسے تو امتحانات اور امتحانات کی تیاریاں طلباء کیلئے ہمیشہ سے ذہنی تناؤ کی وجہ بنتی ہیں اور اس کے نتیجہ میں طلبا کی صحت اور ان کی تعلیمی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے ۔ تاہم گذشتہ چند دہوں میں جب سے مسابقتی امتحانات کا رجحان عام ہوا ہے طلباء پر دباؤ میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ ان کو نفسیاتی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے ۔ طلباء پر دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نمبرات حاصل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کریں۔ آج کے دور میں صرف کامیابی سے کچھ ہونے والا نہیں ہے بلکہ امتیازی کامیابی اوراعلی ترین نمبرات کا حصول ہی طلباء کی کامیابی اور ان کے مستحکم مستقبل کی ضمانت بن کر رہ گیا ہے ۔ ایسے میں طلباء برادری پرجو بوجھ عائد ہو رہا ہے اس جانب کسی کی توجہ نہیں ہے ۔ وقفہ وقفہ سے اس جانب کوئی بیان بازی ہوتی ہے اور پھر ہر گوشے میں اس تعلق سے سکوت طاری ہوجاتا ہے ۔ خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے اور پھر طلباء اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنے کیلئے مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب کبھی امتحانات کے نتائج کا اعلان ہوتا ہے اس وقت بھی ناکامی کے نتیجہ میں طلباء کی خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ حالیہ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ راجستھان کا شہر کوٹا اس طرح کے معاملات میں سر فہرست ہوگیا ہے ۔ کوٹا شہر میں اعلی اور مسابقتی امتحانات کیلئے طلباء کو تیاری کروائی جاتی ہے ۔ ملک کے اعلی ترین کوچنگ مراکز کوٹا میں قائم ہوئے ہیں۔ یہاں طلباء کو امتحانات کیلئے تیار کروایا جاتا ہے ۔ ان کی کوچنگ کی جاتی ہے اور اعلی ترین نمبرات کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے طلباء پر اتنا بوجھ عائد کردیا جاتا ہے کہ کچھ طلباء اس بوجھ کو برداشت نہیں کر پاتے ۔ وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اس طرح کے مسائل سے بھی نہیں نمٹ پاتے اور پھر اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ وہ خود کشی کرلیتے ہیں اور اس طرح ان کا اور ان کے والدین کا اعلی تعلیم کے حصول اور مستحکم و بہتر مستقبل کا خواب چکنا چور ہوجاتا ہے ۔ سارا خاندان ایک طرح سے بکھر کر رہ جاتا ہے ۔ اس طرح کے واقعات عام ہوتے جا رہے ہیں اور ملک کے تقریبا سبھی شہروں میں یہ صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے ۔
گذشتہ دن کوٹا شہر میں ایک گھنٹے میں دو طلباء نے اپنی جان گنوادی ۔ وہ امتحانی تیاریوں کیلئے وہاں مقیم تھے اور اچانک ہی انہوں نے ہمت ہاری اور اپنی جان گنوا بیٹھے ۔ جاریہ مہینے میں صرف کوٹا میںچار طلباء نے خود کشی کرلی ہے ۔ راجستھان کے ایک وزیر نے اس تعلق سے غیر ذمہ دارانہ بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ طلباء کیلئے معاشقہ کے مسائل ہوتے ہیں اس لئے وہ خود کشی کرتے ہیں۔ انہوں نے تعلیمی بوجھ اور انتہائی دباؤ والے ماحول کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ ایک حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کا بوجھ بہت زیادہ ہوگیا ہے ۔ یہ درست ہے کہ ہر انسان کی ترقی اور ایک سماج و ملک کی ترقی اس کی تعلیم اور بہتر و موثر تعلیمی نظام میں مضمر ہے ۔ طلباء اور نوجوانوں کو اعلی اور معیاری تعلیم کے حصول کیلئے جدوجہد کرنی ہی چاہئے ۔ تاہم اس حد تک دباؤ بھی نہ ڈالا جائے کہ وہ زندگی کی جنگ شروع کرنے سے قبل ہی شکست تسلیم کرلیں اور اپنے ہی ہاتھوں اپنی جان لے بیٹھیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں کسی طرح کی سیاست یا کسی طرح کی غیر ذمہ داری نہیں برتی جانی چاہئے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سارے مسئلہ کی جڑ تک پہونچا جائے ۔ اس کی وجوہات کا پتہ چلایا جائے ۔ تعلیم نظام کو مسابقتی تو ضرور برقرار رکھا جائے لیکن اسے نفسیاتی دباؤ سے دور کرنے کیلئے بھی حکمت عملی بنائی جانی چاہئے ۔ ایک ایسا ماحول تیار کرنے پر توجہ دی جانی چاہئے جس کے ذریعہ طلباء میں مسابقت کا جذبہ مزید پروان چڑھے اور وہ دباؤ کا شکار ہونے نہ پائیں۔
بات صرف ایک ریاست یا ایک شہر تک محدود نہیں ہے ۔ ملک کی ہر ریاست اور ہر شہر میں اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو اس معاملے میں ذمہ داری نبھانی چاہئے ۔ انہیں اس مسئلہ کا کوئی جامع اور دیرپا حل دریافت کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس سلسلہ میں ماہرین سے تجاویز حاصل کی جاسکتی ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ذہنی طمانیت کو یقینی بنانے کیلئے بھی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ایسا ماحول پیدا کرنے کیلئے کوشش کرنی چاہئے جس میں طلباء کو مسابقتی امتحانات کی تیاری بوجھ نہ لگے اور وہ زندگی کی جنگ ہار ہی نہ بیٹھیں۔ یہ نہ صرف طلباء کے مستقبل کا سوال ہے بلکہ ملک کے مستقبل کا بھی سوال ہے ۔