عالمی بینک کو افغانستان کی صورتحال پر ’انتہائی تشویش‘ ،امداد معطل

   

n ہر روز کے آپریشنز امریکی فوجیوں کیلئے اضافی خطرہ : بائیڈن n افغانستان کے پڑوسی ممالک کو اپنی سرحدیں کھولنی چاہیئے :ناٹو

نیویارک: عالمی بینک نے افغانستان کی امداد معطل کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے قبضے کے بعد موجودہ صورتحال اور خاص طور پر خواتین کے حقوق پر ’انتہائی تشویش‘ ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق عالمی بینک کے ترجمان نے کہا ہے کہ افغانستان کے لیے امداد روک دی گئی ہے تاہم صورتحال کا قریب سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔واشنگٹن نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ ملک کے سونے اور نقد ذخائر تک طالبان کو رسائی نہیں ملے گی۔ ان میں بیشتر اثاثے بیرون ملک موجود ہیں۔ ورلڈ بینک کی ویب سائٹ کے مطابق افغانستان میں عالمی بینک کے دو درجن سے زیادہ ترقیاتی منصوبے جاری ہیں اور 2002 سے پانچ اعشاریہ تین بلین ڈالر فراہم کیے ہیں جو زیادہ تر امداد کی مد میں تھے۔عالمی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف نے بھی افغانستان کے ساتھ 370 ملین ڈالرز کے قرضے کا پروگرام جبکہ 340 ملین ڈالرز کا ایک اور پروگرام بھی معطل کر دیا ہے۔یورپی اتحادیوں کے انتباہ کے باوجود امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ انخلا کی تکمیل کے لیے 31 اگست کی حتمی تاریخ پر قائم ہیں۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 70 ہزار سے زیادہ افراد کو افغانستان سے نکالا گیا ہے تاہم اب بھی کابل کے ایئرپورٹ پر بہت سارے لوگ ملک سے جانے کے لیے منتظر ہیں۔ امریکہ کے اتحادی ممالک افغانستان سے شہریوں کو نکالنے کے لیے انخلا کی تاریخ میں توسیع چاہتے ہیں۔جو بائیڈن نے منگل کو کہا ہے کہ ’جتنی جلدی ہم ختم کر سکتے ہیں اتنا ہی بہتر ہے۔ ہر روز کے آپریشنز ہماری فوجوں کے لیے اضافی خطرہ ہے۔‘امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’طالبان انخلا کے عمل میں ہماری مدد کے لیے اقدامات کر رہے ہیں لیکن شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے شدید خطرہ ہے۔‘دوسری جانب ناٹوکے ایک سفارت کار نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے انخلا کے لیے افغانستان کے پڑوسی ممالک کو اپنی سرحدیں کھولنی چاہیے۔کابل میں موجود ناٹوکے سفارت کار نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ایران، پاکستان اور تاجکستان کو اپنے زمینی بارڈر اور فضائی سرحدوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نکالنا چاہیے۔‘ناٹو کے سفارت کار نے شناخت ظاہر نہ کرنے پر بتایا ہے کہ متعدد بین الاقوامی امدادی ادارے اپنے افغان عملے کو پڑوسی ممالک میں منتقل کرنے کے لیے پریشان ہیں۔دوحہ میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیئسلی کا کہنا ہے کہ ’کئی برسوں کی خشک سالی، تنازعات، خراب معاشی حالت اور کورونا وائرس کی وجہ سے ایک تباہ کن طوفان آنے والا ہے۔‘انہوں نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ خوراک کی فراہمی کے لیے 20 کروڑ ڈالر عطیہ کیے جائے۔