اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضور پاک ﷺکو تاقیامت ساری انسانیت کیلئے رسول بناکر مبعوث فرمایا اور آپ کو ایسی دائمی و ابدی شریعت مطہرہ عطا کی جو ہر فرد و قوم ، ملک وطن، زمان و مکان کے لئے یکساں قابل قبول و نافذ العمل ہے۔ انقلابات زمانہ، آفات دہر کا اس دستور جاودانی پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ آنکھوں کو خیرہ کرنے والی تیز رفتار ترقیاں، عقل و ہوش کو اڑانے والے جدید انکشافات و اختراعات اس ضابطہ حیات پر چنداں اثرانداز نہیں ہوسکے کیونکہ یہ دستور حیات خالق کائنات کا مرتب کردہ قانون ہے، جس کی بنیاد انسانی عقل و خرد پر نہیں بلکہ وحی الٰہی پر ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا زمانہ میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں گی، قانون اسلامی کی جدت اور تروتازگی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ بلکہ وہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ انسانیت کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں کامل رہنمائی کرتا رہے گا۔
اسلام کے عالمگیر مذہب ہونے کی متعدد وجوہات میں سے ایک اسلام کا قانون حیات ہے جو اس کی آفاقیت و ابدیت پر عمدہ مثال ہے۔ ساری دنیا کے اعلیٰ دماغ و دانشمند ایسے قانونِ زندگی کو پیش کرنے سے عاجز و قاصر ہیں۔ کیا دنیا کی کوئی قوم، دنیا کا کوئی مذہب بتا سکتا ہے کہ ان کے پاس ایسا قانون ہے جو بغیر کسی بنیادی تبدیلی کے ہر وقت ہر دور میں مختلف علاقوں اور ملکوں میں بسنے والے مختلف رنگ و نسل ،مختلف تہذیب و تمدن ، مختلف رسم و رواج کے عادی افراد کی ہر موڑ پر رہنمائی کرتا ہو۔ ساری دنیا میں اس خصوصیت کا حامل کوئی مذہب ہے تو وہ صرف دین اسلام ہے۔
رنگ و نسل کا اختلاف، زبان و بیان کا اختلاف، تہذیب و تمدن کا اختلاف، رسم و رواج کا اختلاف، طور طریق کا اختلاف، رہن سہن کا اختلاف فطری امر ہے۔ قوموں کے عادات و اطوار رسم و رواج ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ اگر قوموں کے عرف عام، رسم و رواج، طور طریقوں کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو جمود و انقباض پیدا ہوگا۔
اسلام ایک فطری دین ہے جس میں فطرت انسانی کا بھرپور لحاظ ہے۔ تقاضائے انسانیت کی کامل مراعات ہے۔ انسانی عادات و اطوار، عرف و رواج کی اہمیت کے پیش نظر اسلام نے رسم و رواج عرف عادت کو یکلخت نظرانداز نہیں کیا اور نہ مکمل آزاد چھوڑ دیا بلکہ حد بندی کردی، اس کے اصول و قواعد منضبط کردیئے اور اس کے دائرہ کار کو متعین کردیا۔
عرف کی تعریف : عرف اسم مذکر ہے جس کے لغوی معنی اردو زبان میں شناختگی، پہچان، مشہور نام، عام نام کے ہیں۔ (فرہنگ آصفیہ جلد دوم )
عرف کی اصطلاحی تعریف : علامہ ابن عابدین شامیؒ نے عقود رسم المفتی میں عرف و عادت کی بایں الفاظ تعریف نقل کی ہے: العرف والعادۃ ، مااستقر فی النفوس من جمعۃ العقول و تلقتہ الطباع السلیمۃ بالقبول۔عرف و عادت وہ قول و عمل ہے جو عقل اور تجربہ تمدنی کی بنیاد پر لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوجائے اور اس کو سنجیدہ فطرت کے افراد نے قبول کرلیا ہو۔عرف و رواج کو بعض اوقات ’’نظیری قانون‘‘ یا ’’قانون مادی‘‘ کی مترادف سمجھا جاتا ہے، یہ اس وقت ہوتا ہے جب احکام کی بنیاد مسلمہ مقامی رواج و عرف پر رکھی جائے اور یہ بات معروف ہے کہ بہت سے قبائل اور طبقات میں یہ غیر مدون قوانین، روایات اور رسم و رواج ہیں جن کے ذریعہ مقامی طور پر اجتماعی زندگی کا نظام چلتا ہے۔ (اردو دائرۃ المعارف)
عرف کی مشروعیت : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :(اے ایمان والو، تم اپنے اموال کو آپس میں باطل طریقہ سے مت کھاؤ مگر یہ کہ تمہارے باہمی رضامندی سے ہوں) یعنی تاجرین کے نزدیک باہمی رضامندی سے جو طریقے رائج ہوں جن کو ملحوظ رکھنے سے اختلاف و نزاع پیدا نہ ہوتا ہو وہ تاجرین کا عرف و رواج شرعاً قابل قبول ہے۔ (سورۃ النساء ؍۲۹)
حدیث شریف سے عرف کا ثبوت : نبی اکرم ﷺمدینہ منورہ ہجرت فرماکر تشریف لائے تو آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ یہاں پہلے قیمت دے کر آڈر کردیا جاتا ہے پھر مال تیار ہوکر خریدار کو ایک مقررہ وقت کے بعد دیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ مکہ مکرمہ کی تجارتی عرف کے خلاف تھا۔ تاہم آپ ﷺنے اہل مدینہ کے تعامل کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے عرف کو جائز قرار دیا۔
اس طرح آپ ﷺنے مدینہ منورہ میں کھجور کے نر و مادہ درخت کے باہم ملاپ سے منع کیا اور قدرتی طور پر ہواؤں کے ذریعہ ان کے ملاپ پر اکتفا کرنے کی تلقین کی۔ بعدازاں آپ ﷺنے اہل مدینہ کے عرف و رواج کے مطابق تابیر نخل کی اجازت مرحمت فرمادی۔قرآن مجید کے نصوص قطعیہ نبی اکرم ﷺکے اقوال مبارکہ بالخصوص عرف و رواج کو ملحوظ رکھنے کی آپ کی تعلیمات کے پیش نظر فقہاء نے شریعت میں عرف و رواج کو کافی اہمیت دی اور مشہور قاعدے مرتب کئے۔
العادۃ محکمۃ : عادت محکم ہے۔الممتنع عادۃ کالممتنع حقیقۃ : جو عادۃً ممتنع ہے وہ حقیقۃً ممتنع کی طرح ہے۔والحقیقۃ تترک بدلالۃ العادۃ : حقیقت، دلالت الحال کی وجہ متروک ہوجاتی ہے۔ انما تعتبر العادۃ اذا الطردت اوغلبت: بلاشبہ عادت کا اعتبار کیا جاتا ہے جبکہ وہ مطرد اور غالب ہوجائے۔ المعروف عرفا کالمشروط شرعًا: جو چیز عرفاً معروف ہو وہ شرعاً مشروط کے درجہ میں ہے۔ المعروف بین التجار کالمشروط بینھم : تاجرین کے مابین معروف، مشروط کے مانند ہے۔ التعیین بالعرف کالتعیین بالنص: عرف سے متعین کرنا نص سے متعین کرنے کی طرح ہے۔
عرف کی ،استعمال کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں۔ (۱) عرف قولی (۲) عرف فعلی۔ عرف قولی سے وہ الفاظ مراد ہوتے ہیں جن کو ادا کرنے سے وہ معنی سمجھ میں آجاتے ہوں جو عرف و رواج میں عام ہوں، اس کے حقیقی و لغوی معنی مراد نہیں ہوتے۔ مثلاً اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ وہ زید کے گھر میں قدم نہیں رکھے گا۔ ’’گھر میں نہیں رکھوں گا‘‘سے گھر میں داخل نہیں ہونگا مراد ہوتا ہے، بناء بریں اگر کوئی شخص قسم کھانے کے بعد گھر میں باہر سے ایک قدم رکھے تو وہ قسم توڑنے والا نہیں سمجھا جائے گا۔ کیونکہ وہ داخل نہیں ہوا اس کے برخلاف اگر وہ اس کے گھر میں گھوڑے پر سوار ہوکر جائے گرچہ اس نے زید کے گھر میں اپنا قدم نہیں رکھا لیکن داخل ہوا ہے اس لئے وہ اپنی قسم توڑنے والا سمجھا جائے گا۔اس طرح اگر کوئی شخص کہے کہ بخدا! میں زید کے گھر کا پانی نہیں پیوں گا۔ پانی نہیں پیا، کھانا کھایا تو بھی قسم توڑنے والا ہوگا کیونکہ عرف و رواج میں ’’پانی نہیں پیونگا‘‘سے ’’زید کے گھر کی کوئی چیز نہیں چکھوں گا‘‘ مراد ہوتا ہے۔
عرف فعلی : وہ عمل مراد ہے جس پر عوام الناس کا عمل درآمد ہو۔ مثلاً شریعت میں بیع اس وقت منعقد ہوتی ہے جب فروخت کنندہ کہے کہ میں نے بیچا، خریدار کہے :میں نے خریدالیکن عرف عام میں کسی شئی کی قیمت معلوم ہوتی ہے خریدار وہ شئی لیتا ہے اور فروخت کنندہ کو رقم ادا کردیتا ہے۔ دونوں زبان سے کوئی لفظ ادا نہیں کرتے لیکن عرف عام کی بناء بیع کے انعقاد کا حکم لگایا جاتا ہے۔
الموسوعۃ الفقہیہ میں عرف کے معتبر ہونے کی پانچ شرطیں بیان کی گئی ہیں۔۱۔ ان یکون العرف مطردا اوغالبا : عرف کلی یا عمومی طور پر جاری ہو۔۲۔ ان یکون العرف عاما: عرف عام ہو خاص نہ ہو۔ ۳۔ الایکون العرف مخالفا للنص الشرعی : عرف نص شرعی کے مخالف نہ ہو ۴۔ ان لایعارض العرف تصریح بخلافہعرف کے خلاف متکلم کی کوئی صراحت موجود نہ ہو۔۵۔ ان یکون العرف قائما عندانشاء التصرف : معاملہ کے وقت وہ عرف موجود ہو۔
عرف کے شرعی اعتبار سے مقبول ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے فقہاء نے دو قسمیں بیان کی ہیں۔ (۱) عرف صحیح (۲) عرف فاسد۔
عرف صحیح کی تعریف : وہ عمل یا طریقہ ہے جس میں نص شرعی کی مخالفت نہ ہو۔ جیسے رسم کے وقت لڑکی کے لئے کپڑے لے جانا۔
عرف فاسد وہ عمل یا طریقہ ہے جس میں کسی دلیل شرعی یا حکم شرعی کی مخالفت ہو۔ جیسے سودی کاروبار کا چلن۔علامہ ابن عابدین شامی نے مفتی کے لئے زمانہ کے عرف اور اہل زمانہ کے احوال سے واقفیت کو لازم قرار دیا اور عرف سے واقفیت کے لئے ایک ماہر استاد فن کی شاگردی کو ضروری ٹھہرایا اور عرف کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : مفتی اپنے اہل زمانہ کے عرف کے خلاف فتوی نہیں دے گا۔اور آپ نے مفتی کے لئے عوام الناس کے احوال سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے جستجو کرنے پر زور دیا اور یہ بھی فرمایا ’’جو مفتی اہل زمانہ سے واقف نہ ہو وہ جاہل ہے‘‘۔نیز فقہاء نے امام ابو یوسف کی عوام الناس کے احوال سے عملی واقفیت کی بناء ان کے قول کو معاملات میں مفتی بہ گردانا ہے۔ نیز امام محمد انگریزوں کے احوال کی تفتیش کے لئے ان کے پاس جانے اور ان کے یہاں رائج طریقہ کار سے واقفیت حاصل کیا کرتے۔لہذا شریعت مطہرہ میں عرف و رواج کو ملحوظ رکھا گیا لیکن جو عرف و رواج شریعت اسلامیہ سے ٹکراتے ہیں وہ قابل رد ہیں۔ وصلی ﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وبارک و سلم اجمعین والحمدللّٰہ رب العلمین۔