جب سے وہ کہہ کر گئے ہیں ہم تمہارے ہوگئے
دوستوں کا ذکر کیا دشمن بھی پیارے ہوگئے
چیف منسٹر جموں و کشمیر عمر عبداللہ نے ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت کے ساتھ خوشگوار اور خیرسگالی تعلقات کو یقینی بنانے کیلئے انڈیا اتحاد کی رائے سے اختلاف کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ نہ صرف یہ کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے تعلق سے انہوں نے کانگریس پارٹی سے اختلاف کیا ہے بلکہ انہوں نے مرکزی حکومت کے سنٹرل وسٹا پراجیکٹ کی بھی زبردست ستائش کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی نئی عمارت تعمیر کرنے کے فیصلے کو درست قرار دیا ہے ۔ ویسے تو پہلے ہریانہ اور پھر مہاراشٹرا میں انتخابی شکستوں کے بعد سے انڈیا اتحاد کے قائدین اور جماعتوں میں اختلاف رائے دیکھا جا رہا ہے ۔ کچھ قائدین دبے دبے انداز میں ایسے ریمارکس اور تبصرے کرنے لگے ہیں جو انڈیا اتحاد کے استحکام کیلئے ٹھیک نہیں کہے جاسکتے ۔ اسی طرح کچھ جماعتوں اور قائدین کی جانب سے انڈیا اتحاد کی قیادت کے تعلق سے رائے ظاہر کی جا رہی ہے ۔ کچھ جماعتیں چاہتی ہیں کہ کانگریس پارٹی کو اس اتحاد کی قیادت سے دور کرتے ہوئے چیف منسٹر مغربی بنگال و صدر ترنمول کانگریس ممتابنری کو انڈیا اتحاد کی قیادت سونپی جائے ۔ ان جماعتوں کے سامنے ممتابنرجی کی بی جے پی کے خلاف لگاتار تین کامیابیاں ہیں تو وہیں کانگریس کی شکستیں بھی ان جماعتوں کو متفکر کر رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ابھی دبے دبے انداز میں ہو رہا ہے ۔ تاہم جس طرح سے عمر عبداللہ نے انٹرویو دیتے ہوئے اظہار خیال کیا ہے وہ ایسا لگتا ہے کہ سب سے کھلے عام انداز میں انڈیا اتحاد کی رائے سے اختلاف ہے ۔ عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ کانگریس کو ووٹنگ مشینوں کے تعلق سے مستقل مزاج ہونا چاہئے اور شکست اور جیت کے مواقع پر مختلف موقف نہیں رکھنا چاہئے ۔ کانگریس پارٹی لگاتار ووٹنگ مشینوں کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے اور ان میں الٹ پھیر کے خدشات کا اظہار کر رہی ہے ۔ بات صرف کانگریس تک محدود نہیں ہے ۔ انڈیا اتحاد کی دوسری جماعتوں نے بھی تقریبا اسی رائے کا اظہار کیا تھا ۔ کئی جماعتیں ایسی ہیں جو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کے خلاف رائے ظاہر کرتی ہیں اور میڈیا میں بھی اس تعلق سے تبصرے کئے جاتے ہیں۔
سماجوادی پارٹی صدر اکھیلیش یادو نے تو لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد بھی پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ حالانکہ یو پی میں انہیں زیادہ نشستیں حاصل ہوئی ہیں لیکن وہ ووٹنگ مشینوں کے ذریعہ انتخابات کروائے جانے کے مخالف ہیں۔ اکھیلیش یادو نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ملک بھر میں انتخابات ووٹنگ مشینوں کی بجائے بیالٹ پیپر پر کروائے جائیں۔ مہاراشٹرا میں جس طرح کے انتخابی نتائج سامنے آئے ہیں ان پر صرف شکست خوردہ جماعتوں کو ہی نہیں بلکہ سارے ملک کے عوام کو بھی حیرت ہے ۔ جس طرح کا ماحول انتخابات سے قبل محسوس کیا گیا تھا نتائج اس کے یکسر برخلاف آئے ہیں۔ ان نتائج نے عوام کے ذہنوں میں بھی کئی سوال پیدا کئے ہیں۔ کئی گوشے ایسے ہیں جو الیکٹرانک ووٹنگ مشینو ں کے تعلق سے سوال کرتے ہیں۔ شکایات کو الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جاتا ہے ۔ کمیشن کے رد عمل پر بھی ان جماعتوں کو اطمینان نہیں ہے ۔ تاہم جس طرح سے انڈیا اتحاد کی جماعتوں نے مہاراشٹرا انتخابات کے بعد ووٹنگ مشینوں کے خلاف ملک بھر میں مہم چلانے کا اعلان کیا تھا اس کے بعد عمر عبداللہ کے یہ ریمارکس غیر ضروری کہے جا رہے ہیں اور اس سے شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ انڈیا اتحاد کی جماعتیں اب انتہائی اہمیت کے حامل مسئلہ پر بھی ایک رائے نہیں ہیں اور ان میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے ۔ انڈیا اتحاد کی جماعتوں کو اس وقت میں ایک رائے ہونے اور آپسی اتفاق کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔
یہ بھی درست ہے کہ کسی بھی مسئلہ پر حلیف جماعتوں میں اختلاف رائے ہوسکتا ہے ۔ ہر ایک کی رائے مختلف ہوسکتی ہے اور اس کا کھل کر اظہار بھی کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم کسی اتحاد میں اگر کوئی جماعت شامل ہو تو اسے اپنے اختلافات یا تحفظات کو آپسی سطح پر اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ کسی جماعت کو کوئی مشورہ دیا جانا ہے تو پھر باہمی طور پر دیا جانا چاہئے ۔ کسی طرح کے اختلافات ہوں تو آپسی مذاکرات کے ذریعہ ان کو دور کیا جاسکتا ہے ۔ جس وقت اتحاد کو اتفاق کی اور استحکام کی ضرورت ہے اس وقت مخالفانہ رائے کا اظہار کرتے ہوئے اتحاد کے استحکام کو متاثر کرنے سے سبھی جماعتوں کو گریز کرنا چاہئے ۔