عید قربان اور خواتین

   

ہمارے ہاں گھرداری عورت کو ہی کرنی پڑتی ہے۔عورت ملازمت پیشہ ہو یا گھریلو خاتون باورچی خانہ اسی کو سنبھالنا پڑتا ہے۔یہ وہ ڈیوٹی ہے جس کا نہ اسے کوئی معاوضہ ملتا ہے نہ چھٹی۔بلکہ چھٹی کے دنوں میں تو اسے یہاں زیادہ وقت گزارنا اور زیادہ کام کرنا پڑتا ہے کہ چھٹی کے دنوں کیلئے افراد خانہ کے پاس فرمائشوں کی ایک لمبی لسٹ ہوتی ہے جن کی تکمیل عورت پر لازم ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں عورتیں باقی دنوں کی طرح عید کا دن بھی باورچی خانے میں ہی گزارتی ہیں۔اکثر تو تھوڑی دیر کیلئے بس عید کی نماز پڑھنے جانے کیلئے عید کا نیا سوٹ پہن لیتی اور پھر آکر سادہ گھریلو لباس پہن لیتی ہیں کہ باورچی خانے میں نئے کپڑوں کے ساتھ کھانا پکانا مشکل لگتا ہے اور کپڑے کھانا پکانے کے دوران خراب ہونے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ عید پر کیا پکانا ہے،کتنا پکانا ہے،کب پکانا ہے،کیوں پکانا ہے،کتنے کے کس فرد کیلئے کیا پکانا ہے،کس مہمان کو کیا سرو کرنا ہے، کتنی ڈشیں بننی ہیں ، میٹھے میں کیا ہو گا،یہ سب دنوں پہلے سوچ لیا جاتا ہے اور سامان منگوا لیا جاتا ہے اور خواتین چاند رات سے ہی کھانے کی تیاری میں لگ جاتی ہیں کہ اکثر کھانے پیچیدہ اور وقت طلب ہوتے ہیں۔عید کے دن جلدی جاگ کر میٹھا بنانا،پھر عید کی نماز سے لوٹ کر خصوصی پکوان بنانے کی کارروائی جس میں عید کے خاص پکوان جیسے قورمہ،بریانی،پلاؤ،مسالہ گوشت،نگٹس،شامی کباب،روسٹ،مختلف قسم کی چٹنیاں وغیرہ شامل ہیں۔ مرد تو قربانی کرکے گوشت بانٹنے ، دوستوں ، عزیز و اقارب سے ملنے جلنے،گھومنے پھرنے کیلئے گھر سے باہر چلے بھی جاتے ہیں یا گھر پر بیٹھے ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں پر یہ خواتین ہی ہیں جو گھر والوں اور گھر پر آنے والے مہمانوں کی خاطر مدارات کے فرائض سر انجام دیتی ہیں، کبھی چائے بن رہی اور کبھی کافی اور ان کے ساتھ ڈھیروں لوازمات جیسے نگٹس،چکن رول،پکوڑے،سموسے،دہی بھلے ، چنا چاٹ،فروٹ چاٹ،کچوریاں اور جانے کیا کیا بنانے میں بے چاریاں ہلکان ہو جاتی ہیں تاکہ گھر والے خوش رہیں۔ اس میں شک نہیں کہ’’عید الفطر ہو یا عید الاضحی‘‘ خواتین کی مصروفیات عام دنوں کی نسبت زیادہ بڑھ جاتی ہیں کیونکہ خوشی کا یہ وہ تہوار ہیں جس میں رشتہ داروں اور عزیز و اقارب کا ایک دوسرے کے گھروں میں آنے جانے اور ملنے ملانے کو باقی ہر کام پر فوقیت دی جاتی ہے۔عید الاضحی خصوصی طور پر قربانی سے منسوب ہے اس لئے ایسے میں خواتین کی کچن کی مصروفیات عام دنوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اتنی مصروفیت کے باوجود خواتین اس دن کی مناسبت سے اپنی تیاری کو نہیں بھولتیں موسم کی مناسبت ملبوسات کی تیاری اور جیویلری کا اہتمام پہلے سے ہی کر لیا جاتا ہے۔اس بار بھی چونکہ عید الاضحی بارش کے موسم میں ہے ایسے میں خواتین نے خوبصورت ملبوسات تیار کئے ہیں اس کے ساتھ میچنگ جیویلری کا بھی بھرپور اہتمام کیا ہے۔اگر ہم یہ کہیں کہ عید الاضحی پر گوشت کے پکوان دسترخوان کی شان ہوتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ نوے فیصد گھرانوں میں عید کے پہلے دن قربانی ہو چکی ہوتی ہے۔جن دس فیصد گھروں میں عید کے دوسرے دن قربانی ہوتی ہے وہ بھی صبح صبح جانور کو ذبح کرکے فارغ ہو جاتے ہیں اور شام تک رشتے داروں کے یہاں گوشت بانٹتے رہتے ہیں،زور ان دونوں ہی صورتوں میں عزیز و اقارب سے ملنے ملانے پر رہتا ہے۔عید الاضحی کے دنوں میں گوشت کے پکوان کھانے کی روایت خاصی ہی قدیم ہے۔ گھر میں قربانی ہو اور نئے نئے پکوان نہ بنیں یہ بھلا کس طرح ممکن ہے۔اب عید پر تکے کھانے اور پکانے کا رواج بہت پرانا ہے۔عید کے دوسرے یا تیسرے دن کی پارٹیاں صرف تکوں تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ ان پارٹیوں میں بریانی،کباب،کوفتہ،بھنا گوشت،بنی ران،ہنٹر بیف ، بہاری بوٹی، ریشمی کباب،چپلی کباب، غرض کے ڈھیر سارے گوشت کے پکوان پیش کئے جاتے ہیں۔تمام دن مہمان نوازی کے بعد خواتین کی مصروفیت میں تھوڑی کمی آتی ہے اور شام کو کہیں جا کر انہیں تیاری کا موقع ملتا ہے۔عید چونکہ بارش کے موسم میں ہے اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے فیشن ڈیزائنرز نے ایسے ملبوسات متعارف کروائے ہیں جن میں دن کیلئے الگ ملبوسات جبکہ شام اور رات کے وقت زیب تن کرنے کیلئے الگ جوڑے ہیں ا ن دنوں میں عموماً دن کے وقت گہرے رنگ پہننے کو ترجیح دی جاتی ہے اور شام یا رات کے وقت گہرے اور ہلکے رنگوں کے امتزاج کے ملبوسات متعارف کروائے جاتے ہیں یوں فیشن ڈیزائنرز نے ملبوسات کے انتخاب میں آسانی پیدا کر دی ہے۔