غزہ جنگ بندی کے آثار

   

مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ مشرق وسطی میں کسی بڑی کامیابی کے آثار پیدا ہوگئے ہیں۔ ان کا اشارہ غزہ جنگ بندی کی سمت دکھائی دے رہا تھا اور کہا جا رہا ہے کہ تقریبا تمام فریقین نے جنگ بندی کیلئے رضا مندی کا اظہار کردیا ہے ۔ گذشتہ چند دنوںسے اس سلسلہ میں بات چیت اور مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا ۔ یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ امریکہ نے جملہ 21 نکات پر مشتمل امن منصوبہ پیش کیا تھا اور حماس اور اسرائیل دونوں نے اس معاہدہ سے اصولی طور پر اتفاق کرلیا ہے ۔ تاہم ابھی باضابطہ طور پر اس تعلق سے کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے ۔ یہ ضرور کہا گیا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارہ پر قبضہ نہیں کر پائے گا۔ یہ پتہ نہیں چل رہا ہے کہ اس منصوبے میں غزہ کے تعلق سے کیا کچھ شامل کیا گیا ہے کیونکہ اسرائیل نے غزہ پر مکمل قبضہ کے منصوبہ کو عملی شکل دینے کے اقدامات شروع کردئے ہیں۔ غزہ میں مسلسل نسل کشی کے ذریعہ ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا ہے ۔ پوری کی پوری بستیوں کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ لاکھوںفلسطینی بے گھر ہوگئے ہیں۔ ان کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے ۔ انہیں نہ ادویات مل رہی ہیں اور نہ ہی دو وقت کی غذا دستیاب ہو رہی ہے۔ غذا حاصل کرنے پہونچنے والے فلسطینیوں پر حملے کرتے ہوئے انہیں موت کی نیند سلادیا گیا ہے اور ساری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ غزہ میں جنگ بندی کیلئے کوششیں کی جا رہی تھیں اور عالمی برادری کی جانب سے اسرائیل پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ نسل کشی کا سلسلہ بند کرے اور اپنی وحشیانہ کارروائیوںپر روک لگائے ۔ امریکی صدر ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارہ پر قبضہ نہیں کرے گا ۔ اس کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ غزہ میں کیا کیا جائیگا ۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے اور قبضہ و ناجائز بستیوں کی تعمیر کو روکنے کیلئے کیا کچھ کیا جائے گا ۔ اس تعلق سے کیا تجاویز تیار کی گئی ہیں اور اگر تیار کی گئی ہیں تو ان پر اسرائیل کا رد عمل کیا رہا ہے ۔ ان تمام تفصیلات کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حقائق کا پتہ چل سکے ۔
غزہ کی جو صورتحال ہے وہ فوری طور پر جنگ بندی اور انسانی بنیادوںپر فلسطینی عوام کی مدد اور ان کی زندگیوںکو بہتر بنانے کی متقاضی ہے ۔ وہاں تعمیر جدید کا کام بھی فوری اور بڑے پیمانے پر عالمی اداروں کی نگرانی میں شروع کیا جانا چاہئے تاکہ جو فلسطینی بے گھر کردئے گئے ہیں وہ دوبارہ معمول کی زندگی شروع کرسکیں اور اپنے گھروں کو واپس ہوسکیں۔ فلسطینیوں کو ان کے حقوق دلائے بغیر مسئلہ فلسطین کا حل یا پھر غزہ کی جنگ بندی بے معنی ہی ہو کر رہ جائے گی ۔ اسرائیل نے تاحال ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے جس سے یہ اشارہ مل سکے کہ وہ اپنی وحشیانہ اور جارحانہ کارروائیوں کو روکنے کیلئے تیار یا رضا مند ہے ۔ اگر امریکہ اس معاملے میں کوئی پیشرفت کر رہا ہے تو اسے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ فوری طور پر روکا جائے ۔ اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیاں روکی جائیں۔ فلسطینیوں کی فوری طور پر مدد کی جائے ۔ انسانی بنیادوں پر غذائی اجناس ‘ پینے کا پانی اور ادویات دستیاب کروائی جائیں ۔ جو امداد مختلف ممالک سے روانہ کی جا رہی ہے وہ کسی روک ٹوک کے بغیر غزہ اور فلسطین کے دوسرے شہروں تک پہونچ پائے اور بتدریج وہاں دواخانوں اورا سکولس کی تعمیر عمل میں لائی جائے کیونکہ دو سال سے جاری وحشیانہ کارروائیوں میں اسرائیل نے دواخانوں کے نیٹ ورک کو تباہ کردیا ہے اور اسکولوں کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا گیا ہے ۔ ان امور پر امریکہ اور عالمی برادری کو فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بیدخل کرنے کی کوئی بات قابل قبول نہیں ہوسکتی اور اس پر کسی کو اتفاق نہیں کرنا چاہئے ۔ اسرائیل کی منت سماجت کرنے کی بجائے اس کی لگام کسی جانی چاہئے اور اسے بین الاقوامی قوانین کا پابند بنایا جانا چاہئے ۔ دو قومی حل کو یقینی بنانے کی سمت پیشرفت ہونی چاہئے اور فلسطینیوں کی زندگی جو اجیرن کردی گئی ہے اس کو ہر طرح سے بہتر بنانے کیلئے عملی طور پرموثر اقدامات کئے جانے چاہئیں ۔ جنگ کے بعد کس کا کیا رول ہوگا اور کیا ہونا چاہئے اس تعلق سے بھی پورا منصوبہ تیار کیا جانا چاہئے ۔ اسرائیلی منصوبوں سے زیادہ فلسطینیوں کے حقوق کی پاسداری ساری دنیا کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔