فقہ حنفی کے نادر مخطوطات

   

مجلس احیاء المعارف النعمانیہ کی تحقیقی خدمات
ڈاکٹر سعید بن مخاشن‘ ایک اُبھرتا ہوا محقق

پانچ آیات پر مشتمل پہلی وحی کے نزول سے عالمی سطح پر تعلیمی تحریک کا آغاز ہوا، حکم الٰہی ’’اقرأ‘‘ درحقیقت انفرادی، عائلی، اجتماعی ہر سطح پر تبدیلی اور ترقی کے لئے علم و معرفت کی بنیادی ضرورت پر کلیدی توجہہ مرکوز کرتا ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ نظام تعلیم اور Education Systemہی اقوام و ملل کے عروج و کمال کا بنیادی عنصر ہے۔ بناء بریں اہل اسلام نے ’’اقرأ‘‘ کے حکم کو ظاہری حد تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس کو لفظیات، محسوسات، مادیات، طبیعیات اور مرئیات کے حدود سے نکل کر، جذبات، معنویات، وجدانیات و الٰہیات میں غوطہ زن ہوکر تحقیقاتی دائرے کو لامتناہی حد تک وسیع تر کردیا۔
صحابہ کرام نے تدوین قرآن کے ضمن میں جو شرائط و اصول مقرر کئے وہ درحقیقت دنیا کے تعلیمی نظام میں عظیم انقلاب تھا۔ اسی طرح تدوین حدیث نے ساری دنیا میں تحقیقی شعور کو بیدار کردیا کہ کس طرح خبر کی صحت و ضعف اور رد قبول کے اصول و قواعد مرتب ہوئے جس کی نظیریں سابقہ کسی قوم میں نہیں پائی جاتیں۔
اگر ہم اصول حدیث کو موجودہ ریسرچ کے معیار پر پرکھیں یا اکیڈیمک اسٹانڈرڈ پر موازنہ کریںتو وہ ہم کو تحقیق کے اعلیٰ ترین معیار پر نظر آئیں گے۔ اس کے برعکس ہندوازم اور عیسائیت کی مذہبی کتابیں، ناقل کی جرح و تعدیل، مخبر سے اتصال سند، خبر کی صحت و ضعف، وضع و بطلان نیز سند و متن کی کسی قسم کی تحقیق و تفتیش سے بالکل معری نظر آتی ہیں۔ الغرض اہل اسلام نے تحقیقی شعور کو بام عروج تک پہنچایا اور ہر فن میں تحقیق کے جوہر بکھیرے۔ چنانچہ ہر زبان میں بطور خاص عربی میں لاکھوں قلمی نسخے دنیا کے طول و عرض میں پھیل گئے۔
جب مغرب میں پریس کی ایجاد ہوئی تو مستشرقین نے مخطوطات کی تحقیق اور اس کی طباعت پر توجہ دی اور اس کے اصول و قواعد مرتب کئے۔ اس کی فہرست سازی اور نمبرنگ وغیرہ کے نت نئے قوانین وضع کئے نیز مستشرقین ہی کی توجہ سے کئی ایک نادر عربی مخطوطات پہلی مرتبہ زیور طبع سے آراستہ ہوکر منصہ شہود پر جلوہ گرہوئے۔
جب علمائے اسلام نے عربی مخطوطات پر تحقیقات کا کام شروع کیا تو انہوں نے اس فن کو خوب نکھارا اور متعدد علمائے اسلام نے اپنی تمام تر زندگیاں اس کام کے لئے وقف کردیں۔ انہی محقق علمائے دین میں ایک عظیم المرتبت ذات گرامی حضرت مولانا ابوالوفاء محمود بن مبارک الافغانی (ولادت ۱۳۱۰؁ھ وفات ۱۳۹۵؁ھ) کی ہے، جو جامعہ نظامیہ کے فیضیافتہ ہیں اور دنیا کے عظیم و نامور محققین اور نقاد اصولیین میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ نے فقہ حنفی کے اہم و نادر مخطوطات جو امہات الکتب کا درجہ رکھتی تھیں جمع کر کے طبع کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اس غرض سے جامعہ نظامیہ کے عظیم شیوخ جیسے مفتی محمد رحیم الدین، مفتی مخدوم بیگؒ، مفتی عبدالحمیدؒ، مفتی سید محمودؒ، مولانا حاجی منیر الدینؒ، حضرت حکیم محمد حسین، مولانا قاری عبدالرحمن بن محفوظ و دیگر علماء و مشائخ، رفقاء و معاونین کے مشورہ و تعاون سے ۳۰؍ربیع الثانی ۱۳۴۸؁ھ مطابق ۴؍سپٹمبر ۱۹۲۹؁ء ایک عظیم علمی مجلس بنام ’’مجلس احیاء المعارف النعمانیہ‘‘ کی جامعہ نظامیہ میں داغ بیل ڈالی۔ اس مجلس کے اغراض و مقاصد میں حسب ذیل نقاط کو اولین ترجیح دی گئی۔ (۱)حنفی فقہاء و محدثین کی غیر مطبوعہ مخطوطات کو چھاپنا اور ان کو عام کرنا۔ (۲)مطبوعہ کتابوں میں اغلاط ہوں تو ان کو دوبارہ طبع کر کے عام کرنا۔ (۳)ایسی مطبوعہ کتابوں کو چھاپنا جن کے نسخے ناپید ہونے کے قریب ہوں۔ (۴)مختلف ممالک سے اہم مخطوطات کو جمع کرنا اور ان کی حفاظت کرنا۔ (۵)مکمل بحث و تمحیص سے مخطوطات کی تحقیق کرنا۔ تحقیق و تعلیق کے اصول و قواعد کو ملحوظ رکھنا نیز مخطوطات فقہاء احناف کے طبقہ اولیٰ و طبقہ دوم سے ہونا۔ (۶)فقہ حنفی اور اصول فقہ حنفی کو نشر کرنا۔ (۷)مختلف علوم و فنون کی کتابوں کو نیز سادات حنفیہ کی مطبوعات پر مشتمل ایک لائبریری کو قائم کرنا۔ احناف کی مطبوعات و مخطوطات کا اہتمام و انتظام کرنے والے ادارہ جات سے رابطہ رقائم کرنا۔
اس مجلس کی خاص بات یہ بھی ہے کہ نہ صرف حیدرآباد کے اجلہ شیوخ، علماء، مشائخ، سرکردہ عمائدین، ادباء و تاجرین اس مجلس کے اراکین، معاونین اور رفقاء کار میں شامل رہے بلکہ ہندوستان کی عظیم و بزرگ علمی و تحقیقی شخصیتیں روز اول ہی سے اس مجلس سے وابستہ رہیں۔ غرض عالم عرب میں بھی اس مجلس کے اراکین و علمی و عملی معاونین و رفقاء کی تعداد کم نہ تھی حضرت شیخ محمد زاہد الکوثر (مصر)، ڈاکٹر ریٹرفل ایچ (جرمن)، ڈاکٹر یوسف شخت (جرمن) حضرت رضوان محمد رضوان (وکیل مجلس، مصر)، شیخ محمد راغب الطباخ (حلب، شام)، شیخ خلیل خالدی (فلسطین)، شیخ اسماعیل حقی (ترکی)، شیخ نور الدین محمد عتر (مصر) وغیرہ اجلہ علمائے عرب شروع ہی سے شریک کار رہے۔
حضرت ابو الوفاء الافغانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس علمی مجلس کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے دنیا کی مختلف لائبریرز سے رابطہ کیا اور نادر و نایاب مخطوطات اور اس کے عکوس و نقول کو حاصل کیا۔ منجملہ ان کے مدینہ منورہ کے مکتبہ شیخ الاسلام عارف حکمت آفندی قسطنطینہ میں موجود مکتبہ شیخ السلام ولی الدین آفندی، آستانہ کے مکتبہ کوبرولو، استنبول کے مکتبہ جورلیلی، مکتبہ ازہر، قاہرہ، مصر، مکتبہ آیاصوفیا، مکتبہ فرنگی محل، لکھنو، کتب خانہ آصفیہ، حیدرآباد، کتب خانہ حسن زمان حیدرآباد، مکتبہ عراق، نیز سہارنپور، جامعہ نظامیہ ممبئی، راجستھان، قندھار، بدایوں، لندن، پیرس، جرمن، شام، مدراس وغیرہ غرض دنیا کے جس کونے میں فقہ حنفی کے مخطوطات کے پائے جانے کی اطلاع ملی، ان سے روابط قائم کر کے حتی المقدور مواد کو حاصل کیا گیا اور اس وقت تحقیق کے سرکردہ ہندوستان اور عالم عرب کے مشاہیر کو مجلس احیاء المعارف النعمانیہ کے تحت جمع کیااور منظم انداز میں غیرمعمولی خدمات انجام دی گئیں۔ مالی وسائل کی کمی کے باوجود فقہ حنفی کے متفرق بیش بہا جواہر پارے، نادر مخطوطات بعد تحقیق طبع ہوکر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے، منجملہ ان کے حسب ذیل کتب قابل ذکر ہیں : کتاب الآثار، امام ابو یوسف (۲)کتاب اختلاف ابی حنفیۃ و ابی لیلی، مؤلفہ امام ابو یوسف (۳)کتاب سیر الاوزاعی (۴)الجامع الکبیر، امام محمد (۵)العالم و المتعلم، امام محمد (۶)کتاب النفقات، خصاف (۷)مناقب الامام ابی حنیفۃ و صاحبیہ، ابی یوسف و محمد بن الحسن مؤلفہ امام ذھبی (۸)مختصر امام طحاوی (۹) اصول سرخسی (۱۰)نکت امام شمس الائمہ سرخسی۔
الغرض مالی وسائل کی کمی کے باوجود مجلس احیاء المعارف النعمانیہ نے کم وقت میں غیرمعمولی خدمات سر انجام دی ہیں جو سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں تاہم عربی زبان میںایسے عظیم ادارہ کی خدمات پر کوئی جامع کتاب نہیں لکھی گئی اور نہ ہی کسی محقق نے اس جانب توجہ دی۔ یہ نعمت ڈاکٹر سعید بن مخاشن کامل الحدیث جامعہ نظامیہ و پی ایچ ڈی جامعہ عثمانیہ و لکچرار مولانا آزاد یونیورسٹی کے حصہ میں آئی جنہوں نے حضرت ابوالوفاء الافغانی رحمہ اللہ کی شخصیت اور اس ادارہ کے وسیع و عریض خدمات پر سیرحاصل مواد جمع کرنے میں خوب عرق ریزی کی۔اور پانچ سال پر مشتمل اپنی تحقیق کا نچوڑ پیش کیا اور ’’مجلس احیاء المعارف النعمانیۃ‘‘ کے نام سے کتاب شائع کی جو مجلس اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ حیدرآباد سے شائع ہوئی۔
مؤلف موصوف عربی زبان و ادب پر غیر معمولی قدرت رکھتے ہیں، عربی زبان کے قادر الکلام شاعر، ماہر مترجم، انشا پرداز، محقق ہیں انہوں نے دکن کی تین عظیم روحانی و علمی شخصیتوں پر عربی و انگریزی میں کام کیا۔ حضرت ابوالحسنات سید عبداللہ شاہ نقشبندی مجددی قادریؒ کی معرکۃ الآراء تصنیف زجاجۃ المصابیح کا انگریزی ترجمہ کا آغاز کیا اور تاحال چار جلدیں طبع ہوچکی ہیں۔ نیز حضرت شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقیؒ بانی جامعہ نظامیہ کی تصنیف انواری احمدی کا انگریزی میں ترجمہ کر کے شائع کیا۔ علاوہ ازیں ابوالوفاء الافغانیؒ کی شخصیت پر علحدہ کتاب عربی زبان میں زیر طبع ہے۔ الغرض ڈاکٹر سعید بن مخاشن قابل مبارکباد ہیں جو اردو میں تحقیقی مقالات پیش کرنے کے علاوہ عربی زبان و ادب میں اپنی صلاحیتیں منواچکے ہیں اور عربی نظم و نثر میں فنی بالادستی رکھتے ہیں علاوہ ازیں انگریزی زبان میں آپ کی تصنیفات و تحقیقات و تراجم منظر عام پر آرہی ہیں جو بلاشبہ اس پست ہمتی کے دور میں علوم اسلامیہ کے طلباء و اسکالرس کے لئے زیر درست نمونہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔