’’قبلہ رُو … ‘‘

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
ہم نے یہ دیکھا ہے کہ جب کسی میت کی تدفین کی جاتی ہے تو قبر میں چہرے کا رُخ قبلہ رو رکھا جاتا ہے اور اگر کبھی اس حوالے سے غلطی ہو جائے تو سارے لوگ شور مچادیتے ہیں کہ دیکھیں چہرہ قبلہ کی طرف نہیں ہوا ! ایسے کریں، ویسے کریں… !!! آپ نے بھی یہ کئی بار دیکھا ہوگا۔لیکن عجیب بات یہ ہے کہ قبر میں میت کا چہرہ قبلہ رو (قبلہ کی طرف ) ہونے کی ہمیں اتنی فکر ہوتی ہے لیکن زندگی میں زندگی کا رُخ قبلہ کی طرف ہے یا نہیں اس پر لوگ شور نہیں مچاتے کہ دیکھو ہماری معاشرت کا رُخ قبلہ کی طرف نہیں ہے! بلکہ کسی اور قبلہ کی طرف ہے! دیکھو ہماری میڈیا کا قبلہ کس طرف ہے! ، ہمارا تعلیمی نظام قبلہ کے مخالف سمت میں ہے!دیکھو کہ ہمارے رہنماؤں کا قبلہ کس طرف کو ہے ۔ یعنی زندگی کے اکثر معاملات قبلہ کی طرف رُخ کرکے نہیں کئے ، لیکن مرنے کے بعد چہرہ قبلہ کی طرف ہو جائے اس کی فکر لگی رہتی ہے۔
ارے بھائی! اصل میں تو قبلہ کا رُخ زندگی میں صحیح طرف کرنا تھا۔ وہاں تو نہ معاشرت میں کیا نہ معیشت میں… اب میت کا رُخ قبلہ کی طرف کرنے کی فکر ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میت کے چہرے کا رخ قبلہ کی طرف کرنا اہم بات نہیں ہے ، اصل بات تو یہ ہے کہ زندگی کا رُخ بھی اُسی قبلہ کی طرف ہونا چاہئے! ہماری شادیاں، ہمارے کاروبار، ہماری خرید و فروخت، ہمارے اخلاق، ہمارے رشتے، ہمارے باہمی تعلقات، ہمارا تعلیمی و تربیتی نظام …ان سب کا قبلہ کس طرف کو ہے؟
ان سارے معاملات میں قبلہ کا رُخ اُسی طرف کرلیں جس طرف ہماری میت کا چہرہ ہوگا۔
آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ ذرا غور و فکر کریں ؟
ہماری سانسیں نہیں معلوم کب تھم جائیں ،کب ہم اس دُنیا سے رخصت ہوجائیں ہم نہیں جانتے ۔ ہم یہ تو کرسکتے ہیں کہ جس کے پاس جانا ہے اُس ذات کو راضی کرلیں ۔ اپنی ہر سانس کو بس اُسی کے نام کردیں ۔ ایک نہ ایک دن تو جانا ہی ہے کیوں نہ اپنے رب کے پاس جانے سے پہلے ہی ہم اپنے رب کے ہوجائیں …!
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ‘‘ یعنی جو مخلوق زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے۔ ’’وَ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ ‘‘ یعنی تمہارے پروردگار کی ہی ذات بابرکت ؒ صاحب جلال و عظمت ہے باقی رہے گی ۔ ( سورۃ الرحمٰن ۲۶۔۲۷) 
تفسیر روح البیان میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو فرشتوں نے کہا انسان ہلاک ہو گیا اور جب یہ آیت ’’ كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ‘‘ نازل ہوئی تو فرشتوں کو اپنی موت کا بھی یقین ہوگیا۔یعنی اے حبیب ﷺ! ، زمین پر موجود تمام مخلوق فنا ہوجائے گی اور صرف آپؐ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی ذات باقی رہے گی جو عظمت و کِبریائی والی ہے اور وہ اپنی عظمت و جلالت کے باوجود اپنے اَنبیاء، اولیاء اور اہلِ ایمان پر لطف وکرم فرمائے گااور مخلوق کے فنا ہونے کے بعد انہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور انہیں اَبدی زندگی عطا کرے گا۔اور یہ بھی کہہ دو کہ میری نماز اور عبادت ، میرا جینا ، میرا مرنا سب خدائے رب العالمین کے لئے ہے (سورہ ٔالانعام) 
اگر تم اپنی عبادات کی قبولیت چاہتے ہو تو حقوق العباد کی ادائیگی خود پر لازم کرلو ۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ تاجدار رسالت ﷺ نے فرمایا: اس دعا یعنی ’’ یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْاِکْرَام‘‘ کو لازم پکڑ لو اور اس کی کثرت کیا کرو۔( ترمذی) 
اے رب العالمین ہمیں خلوص نیت اور صبر و استقامت کے ساتھ اپنے عزیز و اقارب اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرما ۔ ( آمین )