(اے محبوب) آپ فرمائیے (انھیں کہ) اگر تم واقعی محبت کرتے ہو اللہ سے تو میری پیروی کرو (تب ) محبت فرمانے لگے گا تم سے اللہ اور بخش دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔(سورۃ ال عمران :۳۱)
جب یہود کو اسلام کی دعوت دی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ ہم تو پہلے ہی محبت الٰہی سے سرشار ہیں اور اس کے لاڈلے فرزند ہیں۔ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ کسی نئے نبی کی اُمت میں داخل ہونے کی زحمت گوارا کریں۔ سابقہ آیات میں قرآن نے ان کے برے اعمال اور رذیل عادات کا ذکر فرمایا۔ ایسی ناپسندیدہ حرکات کے باوجود وہ خدا کی دوستی کادم بھرا کرتے ۔ ان آیات میں انہیں تنبیہ فرمائی جارہی ہے کہ محبت الٰہی کا دعویٰ بغیر دلیل قابل التفات نہیں۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے اس برگزیدہ رسول کی اطاعت وفرمانبرداری کرو۔ اگر تم نے دل وجان سے اس رسول کریم (ﷺ) کی اطاعت کی تو تمہارا دعویٰ محبت بھی درست تسلیم کر لیا جائے گا۔ اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی ایک سب سے بڑی نعمت سے بھی سرفراز کئے جاؤ گے یعنی تمہیں محبوب الٰہی ہونے کا شرف بخشا جائے گا۔ اور تمہارے اعمال نامہ کی سیاہی کو رحمت اور مغفرت کے پانی سے صاف کر دیا جائے گا۔ مصطفی علیہ التحیۃ والثنا کی عظمت شان اور جلالت قدر کا کیا کہنا۔ جس کی غلامی یہود ایسی راندہ درگاہ اور ذلیل قوم کو بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا سکتی ہے۔ اور اس کے گھناؤنے کرتوتوں کی بخشش کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر امت مسلمہ اتباع حبیب خدا کو اپنا شعار بنا لے اور سنت سرور کائنات کے سانچے میں اپنی سیرت کو ڈھال لے تو کیا یہ محبوبیت کی خلعت فاخرہ سے نوازی نہیں جائے گی؟