(حرمت والے مہینوں کو ) ہٹا دینا تو اور اضافہ کرنا ہے کفر میں۔ گمراہ کئے جاتے ہیں اس سے وہ لوگ جو کافر ہیں حلال کردیتے ہیں ایک ماہ کو ایک سال اور حرام کردیتے ہیں اسی کو دوسرے سال تاکہ پوری کریں گنتی ان مہینوں کی جنھیں حرام کیا ہے اللہ نے تاکہ اس حیلہ سے حلال کرلیں جسے حرام کیا ہے اللہ نے۔ (سورۃ التوبہ : ۳۷)
ان دونوں صورتوں میں چونکہ صرف اپنی ذاتی سہولتوں اور مالی منفعتوں کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے اٹل اور محکم احکام میں ردوبدل کر لیا کرتے تھے اس لیے ان کے اس فعل کو زِیَادَةٌ فِی الْكُفْرِکے لفظ سے تعبیر فرمایا۔ سنہ ۱۰ ھ میں جب رحمت عالمیاں (ﷺ) حجۃ الوداع کے لیے مکہ تشریف لے گئے تو اس سال ان کے دستور کے مطابق بھی حج ۹،۱۰ ذی الحجہ کو ادا ہونا قرار پایا تھا اس لئے حضور (ﷺ) والثناء نے فرمایا اس سال بھی حج درس عبرت ہے کہ وہ اپنی ذاتی مصلحتوں اور دوسرے وجوہ کے لیے احکام الٰہی میں ردوبدل نہ کریں۔ نسأ کا لغوی معنی ہے کسی چیز کو اپنے وقت سے مؤخر کر دینا ۔ (قرطبی)۔ یہی سب سے بڑی بدبختی ہے کہ انسان گناہوں کو ثواب اور مضر چیزوں کو نفع رساں سمجھ کر اختیار کر لیتا ہے۔ اور یہ شیطان کا وہ دام فریب ہے جس سے توفیق الٰہی کی یاروی کے بغیر کوئی بچ نہیں سکتا۔ يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغيْثُ أَصْلِحْ لِي شَأْنِيَ كُلَّهُ وَلَا تَكِلْنِي إِلٰى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍo