سب تعریفیں اللہ کے لئے جو مرتبۂ کمال تک پہنچانے والا ہے سارے جہانوں کا ۔ (سورۃ الفاتحہ ۔۱)
ہر خوبی وکمال جس کا ظہور اختیار اور ارادہ سے ہو۔ اس کی ستائش وثنا کو عربی میں حمد کہتے ہیں۔ تو اس لفظ حمد نے اس حقیقت کو بےحجاب کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کمال سے متصف ہونا اضطراری اور غیر اختیاری نہیں بلکہ اس کی اپنی مرضی اور ارادہ کی جلوہ نمائی ہے۔ کمال کہیں بھی ہو جمال کسی روپ میں ہو اسی کی کرشمہ سازی ہے۔ اسی کی بااختیار تدبیر کا اعجاز ہے تو ستائش وتعریف کسی کی بھی کی جائے حقیقت میں اسی ذات بےہمتا کی ہے جس کی قدرت واختیار سے اس عالم رنگ وبو کی ساری رنگینیاں اور رعنائیاں رو پذیر ہیں۔ اسی لیے فرمایا الحمد للہ۔سورۂ فاتحہ کا آغاز الحمد سے کیا۔ اس سے اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ سالک جب راہ طلب میں قدم رکھے تو پہلے اپنے رب کی حمد کرے جس نے اس راہ پر گامزن ہونے کی اسے توفیق بخشی، جس نے نے منزل مقصود کی لگن اس کے دل میں پیدا کی کیونکہ ’’میری طلب بھی اُنہیں کے کرم کا صدقہ ہے …قدم یہ اُٹھتے نہیں ہیں اُٹھائے جاتے ہیں‘‘نیز اس سورت میں دعا بھی ہے اور دعا کے آداب سے یہ بھی ہے کہ مولائے کریم جس کے سامنے وہ دامن طلب پھیلا رہا ہے اس کی بخشش بےاندا ز اور عنایت جہاں پرور کا اعتراف کرے۔ رب مصدر ہے اس کا معنی ہے تربیت۔ اور تربیت عربی میں کہتے ہیں ’’ کسی چیز کو اس کی ازلی استعداد وفطری صلاحیت کے مطابق آہستہ آہستہ مرتبہ کمال تک پہنچانا‘‘ (روح المعانی)