وہ جو ایمان لائے ہیں غیب پر اور صحیح صحیح ادا کرتے ہیں نماز اور اُس سے جو ہم نے انھیں روزی دی خرچ کرتے ہیں ۔(سورۃ البقرہ :۳)
گزشتہ سے پیوستہ … یہ متقین کی دوسری علامت ہے۔ قرآن میں یہ حکم کہیں نہیں کہ نماز پڑھا کرو بلکہ جب بھی فرمایا تو یہی کہ نماز قائم کرو۔ اور نماز قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز کو تمام حقوق ظاہری اور باطنی کے ساتھ ادا کرو۔ نماز کے ظاہری حقوق تو یہ ہیں کہ سنت نبوی کے مطابق تمام ارکان بجا لائے جائیں۔ اور باطنی حقوق یہ ہیں کہ تو خضوع وخشوع میں ڈوبا ہوا ہو اور احسان کی کیفیت طاری ہو یعنی تو محسوس کر رہا ہو کہ کانک تراہ گویا تو اپنے معبود کو دیکھ رہا ہے۔ ورنہ کم از کم اتنا تو ضرور ہو کہ فانہ یراک کہ تیرا رب تو تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس ذوق وشوق سے ادا کی ہوئی نماز ہی وہ نماز ہے جس کو دین کا ستون اور مومن کی معراج فرمایا گیا ہے۔ ورنہ ’’میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب‘‘۔ لغت میں رزق کہتے ہیں حصہ اور بخشش کو خواہ حسی ہو یا معنوی ۔ مال ، اولاد ، علم ومعرفت اس لحاظ سے سب رزق ہیں۔ اور یہاں بھی رزق کا یہی لغوی معنی مراد ہے۔ اس آیت سے پتہ چلا کہ جو کچھ کسی کے پاس ہے مال وجاہ ہو، علم و عرفان ہو کسی کا اپنا نہیں بلکہ سب اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اس میں ہے کہ وہ اس میں بخل نہ کرے۔ بلکہ جو ان نعمتوں سے محروم ہیں ان میں تقسیم کرتا رہے۔ دولت مند اپنی دولت سے، عالم اپنے علم سے اور عارف اپنے روحانی فیوضات سے مستحقین کو مالا مال کرے۔ یہ فیض عام متقین کی تیسری علامت ہے۔…جاری ہے