قربانی ایک معاشی اور اقتصادی جائزہ

   

’’حُجّوا قَبْلَ أَنْ لَا تَحُجّوا‘‘

حج میں جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد دسویں ذی الحج کی صبح صادق سے ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک قربانی دینا واجب ہے ۔ منیٰ میں قربانی کرنا سنت ہے ۔ احقر کو منیٰ میں قربانی کرنے کا موقعہ ملا ۔ الحمدﷲ ۔ آج کے دور میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں ۔ اس کے بعد حلق یا قصر کیا جاتا ہے جو سنت ہے ۔ قربانی اﷲ کی قربت اور رضامندی کا ذریعہ ہے جسے اخلاص نیت سے کیا جانا چاہئے ۔ آپؐ نے فرمایا : ’’عیدالضحیٰ کے دن اﷲ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل قربانی کرنا ہے ‘‘۔ آپؐ نے مزید فرمایا : ’’جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے بارگاہِ خداوندی میں قربانی کا عمل قبول ہوجاتا ہے اور قربانی کے جانور کے ہر ایک بال کے بدلے اﷲ رب العزت ایک نیکی عطاء کرتا ہے ۔ حضورؐ نے اپنی اُمت کی طرف سے بھی قربانی دی جو قربانی نہ دے سکے۔ ( مسند احمد ) حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں رسول اﷲ ﷺ دو میندھے قربانی دیا کرتے تھے اس لئے میں بھی دو مینڈھے قربانی دیتا ہوں ۔ ( بخاری )
آج کل لوگوں میں سوشل میڈیا پر یہ گمراہی پھیلائی جارہی ہے کہ ایک گھر میں ایک فرد قربانی دیتا ہے تو سب کی طرف سے ادا ہوجائیگی ۔ یہ بالکل غلط ہے ۔ اس کا ازالہ ہونا چاہئے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ گمراہی اُن صاحب ثروت لوگوں کی طرف سے پھیلائی جاتی ہے جو اپنے بیوی ، بچوں اور گھروں پر لاکھوں کروڑوں روپئے خرچ کرتے ہیں جن کے لئے اﷲ کی راہ میں چند ہزار ر وپیوں کی قربانی عار ہے ۔ حنفی مسلک میں ہر بالغ ، عاقل اور صاحب نصاب اور استطاعت مسلمان مرد اور عورت پر سنت واجب ہے ۔ اﷲ کے ہر حکم اور عبادت میں ایک حکمت پوشیدہ ہے ۔ عیدالاضحی کے مبارک موقعہ پر ایک اندازے کے مطابق ۴کھرب روپئے سے زیادہ کا مویشیوں کا کاروبار ہوتا ہے ۔تقریباً ۲۳ ارب روپئے قصائی مزدوری کے طورپر کماتے ہیں ۔ ۱۳ ارب روپیوں سے زیادہ چارہ کا کاروبار کرنے والے کماتے ہیں ۔ دُنیا میں سب سے بڑا کاروبار عیدالاضحی کے موقعہ پر ہوتا ہے ۔ سبحان اﷲ ! نتیجتاً غریبوں کو مزدوری ملتی ہے ۔ کسانوں کا چارہ فروخت ہوتا ہے ۔ دیہاتیوں کو مویشیوں کی اچھی قیمت ملتی ہے ۔ اربوں روپئے جانوروں کو گاڑیوں میں لانے لیجانے والے کماتے ہیں۔ قربان کے بعد ازاں غریبوں کو کھانے کے لئے مہنگا گوشت مفت میں ملتا ہے ۔ جانوروں کی کھالیں کئی سو ارب روپیوں میں فروخت ہوتی ہیں۔ چمڑے کی فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کو مزید کام ملتا ہے ۔ یہ سب پیسہ جس جس نے کمایا ہے وہ اپنی اپنی ضروریات پر خرچ کرتے ہیں ۔ یہ قربانی غریب کو صرف گوشت نہیں کھلاتی بلکہ آئندہ سارا سال غریبوں کے روزگار اور مزدوری کی بھی ضامن ہوتی ہے ۔ دُنیا کا کوئی ملک کروڑوں اربوں امیروں پر ٹیکس لگاکر غریبوں میں بانٹنا شروع کردے تب بھی غریبوں اور ملک کا اتنا فائدہ نہیں ہوتا جتنا اﷲ کے اس حکم کے ماننے سے ہوتا ہے ۔
اکنامکس ( معاشیات) کی زبان میں ’’سرکولیشن آف ویلتھ (پیسوں کا چلن ) ‘‘ کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کا حساب لگانے پر عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے ۔ اس لئے مسلمانوں ! فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْاپنے پروردگار کیلئے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو (الکوثر ) اﷲ کے حکم کی تعمیل ، اور سنتِ ابراہیمی ؑ اور سنتِ رسول اﷲ ؐ کو قائم رکھنے کا بہت بڑا اجر بھی ہے ۔ وما توفیقی الا بااﷲ