قطب الاقطاب حضرت سید شاہ راجو محمد محمد الحسینی قبلہؒ

   

سید شاہ ندیم اللہ حسینی
حیدرآباد دکن کے مشہور بزرگ قطب الاقطاب حضرت سید شاہ یوسف محمد محمد الحسینی قبلہؒ المعروف حضرت سید شاہ راجو حسینی قبلہؒ کا سلسلۂ نسب حضرت سید شاہ اکبر حسینی قدس سرہٗ کے ذریعہ آٹھویں پشت میںحضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز علیہ الرحمہ سے جاملتا ہے۔ حضرت کا اسم اگرامی سید شاہ یوسف محمد محمد الحسینی قبلہ شاہ راجولقب اور راجو تخلص فرماتے تھے۔ حیدرآباد میں اپنے جد اعلیٰ حضرت سید شاہ راجو قتال قبلہؒ پدر بزرگوار حضرت سیدنا خواجہ بندہ نواز قدس سرہ العزیز کے نام نامی سے مشہور ہیں۔ حضرتؒ کی پیدائش ۱۰۰۲ھ؁ میں بیجا پور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد حضرت سید شاہ سفیر اللہ حسینی قبلہؒ کے زیر سایہ ہوئی۔ یہ عہد عبداللہ قطب شاہ کا تھا آپ اپنے عم محترم حضرت سید شاہ اکبر حسینی قبلہؒ جو اپنے وقت کے بلند پایۂ بزرگ اور جید عالم دین تھے۔بلدہ حیدرآباد تشریف لائے عم محترم نے برادر زادہ کو بعد تعلیم و تربیت جب اس میں کامل پایا تو بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایا اور بعد وصال عم محترم حضرت شاہ راجو قبلہؒ مسند سجادگی پر فائز ہوئے اور شد و ہدایت فرمانے لگے۔ حضرت کی تعلیمات اور خانقاہ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی لوگ جوق در جوق ہزاروں کی تعداد میں جمع ہونے لگے۔ عامی و عالم، امیر و غریب ہرعقیدہ اور ہرمسلک کے لوگ حضرت کے ارشادات عالیہ سے مستفید ہونے لگے۔ اسی اثناء میں ابوالحسن نامی ایک نوجوان حضرت کی خدمت میں آکر خانقاہ میں رہنے لگا۔اتفاق ایسا ہوا کہ ابوالحسن ایک وقت خانقاہ سے نکل رہا تھا اور عبداللہ قطب شاہ خانقاہ میں حاضری کے لئے داخل ہورہا تھا۔ اس وقت حضرتؒ خانقاہ میں تشریف رکھتے تھے حضرت نے اس منظر کو دیکھ کر فرمایا ایک بادشاہ جارہا ہے اور ایک بادشاہ آرہا ہے لیکن حضرت کا ارشاد عالیہ بہت جلد حقیقت بن کر سامنے آگیا۔ ہوا یہ کہ عبداللہ قطب شاہ کی سب سے چھوٹی لڑکی کی شادی جو پہلے سے طئے شدہ تھی عین وقت پر کسی وجہ سے ٹوٹ گئی۔ بادشاہ بہت پریشان ہوا اور حضرتؒسے رجوع ہوا۔ حضرت ؒ نے ارشاد فرمایا ابوالحسن کو بادشاہ کے پاس لے جاؤ اور اس کا عقد بادشاہ کی لڑکی سے کردو۔ حضرت کے ارشاد کی تعمیل ہوئی۔ چنانچہ یہی ابوالحسن جو خانقاہ کا جاروب کش تھا بعد میں ابوالحسن تاناشاہ کے نام سے قطب شاہی تخت پر بادشاہ کی حیثیت سے فائز ہوا۔ اس طرح حضرت کافرمانا حقیقت بن کر پورا ہوا۔
حضرت شاہ راجوؒ علوم دینی اور دنیوی پر کامل دستگاہ رکھتے تھے۔ چنانچہ خانقاہ میں پابندی سے درس و تدریس کا سلسلہ ہوا کرتا تھا جس سے ہزارہا بندگان حذا مستفید ہو کر صبر وتوکل قناعت و ریاضت اصلاح باطن پر گامزن ہوتے تھے۔حضرت سید شاہ راجومحمد محمد الحسینی ؒ ’’زادالموحدین ‘‘ میں جو آپ کے خطاب کا مجموعہ ہے ارشاد فرماتے ہیں ’’نماز جماعت سے پڑھنا سنت موکد ہے‘‘ جو کوئی ۴۰ سال تک ایک فرض نماز بھی جماعت کے بغیر نہ پڑھے صوفیہ کرام میں ایک خاص مقام رکھتا ہے اور باطنی طور پر جماعت سے نماز پڑھنے سے مراد قلب روح سر اور خفی کو ایک ساتھ جمع کرتا ہے جب یہ سب ایک ساتھ جمع رہیں تب نماز با جماعت درست ہوتی ہے۔ تقریباً ۵۰سال تک درس و تدریس اور ارشادات عالیہ کے ذریعہ مخلوق خدا کی رہبری اور رہنمائی فرمانے کے بعد ۱۵صفرالمظفر ۱۰۹۲؁ھ کو اس جہان فانی سے پردہ فرمالیا۔ ابوالحسن تانا شاہ نے فرط عقیدت سے حضرت کے مزار مبارک پر ایک عالیشان گنبد مبارک تعمیر کروایا جو فن تعمیر اور آرٹ کا ایک نادرشاہکار ہے۔حضرت سید شاہ راجو محمد محمد الحسینی ؒکے (۳۴۹) ویں عرس تقاریب ۱۳‘ ۱۴‘ ۱۵‘ ۱۶ صفر المظفر کو منعقد ہورہی ہیں ۔
جن میں معتقدین و مریدین‘ ریاست و بیرون ریاست سے بلا مذہب و ملت ہزاروں کی تعداد میں شرکت کرکے فیض حاصل کرتے ہیں، حضرت کا فیضان آج بھی جاری و ساری ہے۔