لاک ڈاؤن کے دوران رمضان المبارک شخصی ارتقا ء اور اخلاقی و روحانی تربیت کا مہینہ

   

اس سال رمضان المبارک بالکل مختلف ہے ، نہ افطار کی رونقیں نظر آرہی ہیں اور نہ مساجد میں تراویح و پنجگانہ نمازوں کا اہتمام ہے ۔ بعض حضرات مساجد بند ہونے کی وجہ سے قلبی طورپر رنجیدہ اور مایوس ہیں جبکہ ہمیں ہرچیز کے مثبت پہلوؤں کو اختیار کرنا چاہئے ۔ چونکہ یہ قضاء الٰہی ہے اور قضاء الٰہی ہرحال میں مومن کے لئے بہتر ہے ۔ گرچہ ہم مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنے اور اجتماعی عبادت کی لذت و حلاوت پانے سے محروم ہیں ، لیکن ہم رمضان کو گھروں میں اہل و عیال کے ساتھ رہتے ہوئے ہماری شخصی ارتقاء اور اخلاقی و روحانی تربیت کا مؤثر مہینہ بناسکتے ہیں۔ ہم تعلق مع اﷲ ، خشوع و خضوع پر خصوصی توجہ مرکوز کرسکتے ہیں۔ یہ مہینہ درحقیقت تربیت نفس کا مہینہ ہے ۔ انسان کو حیوانی شہوات سے نکالکر روحانی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے عطا کیا گیا ہے ۔ اس کی عبادتوں اور ریاضتوں پر غور کیا جائے تو یہ مہینہ شخصی تبدیلی کا سب سے مؤثر مہینہ معلوم ہوتا ہے ۔ چنانچہ روزہ کے مقصد میں یہ ہے کہ انسان اپنے نفس پر حاکم ہوکر پاکیزگی کے اعلیٰ مقام تک پہنچ جائے ۔ قرآن مجید کی جن آیات میں روزے کی فرضیت اور رمضان المبارک کا ذکر ہے اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے اور رمضان المبارک کے تین بڑے مقصد ہیں (۱) تقویٰ کا حصول (۲) خدا کی تکبیر و تعظیم کا جذبہ پیدا کرنا (۳) خدا کا شکر ادا کرنا ۔

پس روزے کی ساری حکمتیں اور فضیلتیں اسی کے گرد گھومتی ہیں ۔ اس سلسلہ میں احادیث کے علاوہ فقہاء و علمائے کبار نے ’’صوم‘‘ کے اسرار پر بہت کچھ لکھا ہے ۔ روزہ تربیت نفس اور روحانی ارتقاء کا قدیم ترین اور مجرب نسخہ ہے یہ نہ صرف اس اُمت پر بلکہ آیات قرآنیہ کی رو سے سابقہ اُمتوں پر فرض کیا گیا تھا جس کی تفصیل تورات و قدیم کتب سماویہ سے ملتی ہے ۔
احادیث شریفہ میں روزے کے بڑے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جب ماہِ رمضان شروع ہوتا ہے تو رحمت (بروایت دیگر جنت ) کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔ جس شخص نے ایمان اور حصول ثواب کے لئے رمضان کے روزے رکھے اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف ہوگئے ، انسان کی ہر نیکی کا بدلہ دس گنا سے سات سو گنا تک ہے ، مگر اﷲ تعالیٰ نے روزے کو مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے فرمایا ’’بندہ روزہ میرے لئے رکھتا ہے اور میں ہی اس کا اجر دونگا‘‘۔
حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کے آخری دن نبی اکرم ﷺ نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’اے لوگو ! ایک عظمت والا اور برکت والا مہینہ تم پر سایہ فگن ہے ۔ اس مہینہ میں ایک رات ہے جو ہزار ماہ سے بہتر ہے ۔ اﷲ نے اس مہینے کے روزے فرض کئے ہیں اور اس مہینہ میں قیام اللیل نفل ہے ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے ۔ یہ ہمدردی اور غمگساری کا مہینہ ہے ۔ اس مہینہ میں مومن کا رزق زیادہ ہوجاتا ہے ۔ جس نے روزہ دار کو روزہ افطار کرایا ، اس کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اور اسے جہنم سے نجات مل جاتی ہے ۔ پانی کاگھونٹ اور دودھ کاپیالہ اور ایک کھجور پر افطار کرانے سے بھی یہ ثواب ملتا ہے ۔ … اس مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے ،دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے اور تیسرا دوزخ کی آگ سے نجات کا ۔ جس نے اپنے خادم اور نوکر سے اس مہینہ میں کام کم لیا ، اﷲ اس کے گناہ معاف کردیگا اور اسے دوزخ کی آگ سے بچالیگا ۔

(مشکوٰۃ المصابیح۔ کتاب الصوم )
غرض اس طرح کی بہت سی فضیلتیں احادیث میں بیان ہوئی ہیں ۔ روزہ کے ترک کرنے پر بہت وعید آئی ہے۔ حضورپاک ﷺ نے فرمایا : جو شخص رمضان میں بلاعذر شرعی ایک دن بھی روزہ نہ رکھا تو اس روزہ کے بدلے اگر تمام عمر روزے رکھے تو کافی نہ ہوگا ‘‘۔ (الترمذی) ایک حدیث میں فرمایا کہ ’’جو شخص ماہِ رمضان میں گناہوں کی معافی حاصل نہ کرسکے وہ اس کی رحمت سے محروم ہوگیا ۔ ( مفہوم حدیث ۔ الترمذی)

نبی اکرم ﷺ نزول قرآن سے قبل غارِ حرا میں رمضان کے مہینے میں مصروف عبادت تھے (مسلم ، کتاب الایمان) کہ اس دوران میں قرآن کے نزول کا آغاز ہوا۔
قبولیت دعا کا بھی صوم سے گہرا تعلق ہے ، اس لئے قرآن میں رمضان کا ذکر کرتے ہوئے خاص طورپر قرب الٰہی اور قبولیت کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : جب میرے بندے تم سے میرے متعلق دریافت کریں تو اُنھیں بتادو کہ میں قریب ہوں ، میں دعا کرنے والے کی دعا کو جب وہ مجھے پکارتا ہے قبول کرتا ہوں ۔ پس لوگوں کو چاہئے کہ میری فرمانبرداری کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ ہدایت پائیں۔ (البقرہ؍۱۸۶)
احادیث میں رمضان کی برکات کا سلسلہ میں قبولیت دعا کا بکثرت ذکر آتا ہے خاص طورپر افطار کے وقت اور رات کے پچھلے حصہ میں ۔ اﷲ تعالیٰ کا حاضر و ناظر ہونا ، جو دوسروں کے لئے شاید محض ایک اعتقادی چیز ہو ، روزہ دار کے لئے ایک نفس الامری حقیقت بن جاتی ہے اور انسان کے اندر ایک اعلیٰ اور ارفع زندگی کا شعور پیدا ہوجاتا ہے جو اس زندگی سے بالاتر ہے جس کا قیام کھانے پینے سے وابستہ ہے اور یہی روحانی زندگی ہے ۔ پس روزہ صرف ظاہری بھوک اور پیاس کا نام نہیں بلکہ درحقیقت قلب و روح کی غذا اور تسکین کا ذریعہ ہے ۔ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں ’’جو شخص جھوٹ اور برے کام نہیں چھوڑتا اﷲ تعالیٰ کو اس کا بھوکا پیاسا رہنے کی ضرورت نہیں۔ (البخاری ، کتاب الصوم )
شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ نے روزہ کی حقیقت پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے ’’چوں کہ شدید بہیمیت ، احکام پر عمل پیرا ہونے سے مانع ہے ، اس لئے اس کے مقہور اور مغلوب کرنے پر زیادہ سے زیادہ توجہہ کرنا لازم ہے ۔ ظاہر ہے کہ بہیمیت کو تقویت دینے اور اس کی ظمت بڑھانے کیلئے خوش ترین اسباب کھانا ، پینا اور شہوت نفسانیہ میں منہمک ہونا ہے ۔ بہیمیت کو مقہور و مغلوب کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسباب کی تقلیل میں آدمی کوشاں ہو۔ اس لئے وہ تمام خدا پرست جو اپنے نفس امارہ کی مغلوبیت اور آثار ملکیت ( فرشتہ بن ) کے ظہور کے خواہاں ہوتے ہیں ، چاہے وہ کسی ملک کے رہنے والے ہوں ، ان سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کی بہترین تدبیر ان اسباب کی تقلیل ہے ۔ نیز اصل مقصود یہ ہے کہ آدمی کی بہیمیت اس کی ملکیت کی تابع ہوجائے تاکہ وہ اس دنیا میں اپنا تصرف کرسکے اور اول الذکر اس کے رنگ میں رنگ جائے مَلَکیت ( فرشتہ پن) کو اس قدر غلبہ حاصل ہو کہ وہ بہیمیت (حیوانیت) کے الوانِ خیر کو قبول نہ کرے ۔ اس کے حسیس نقوش ’’ملکیت‘‘ ( فرشتہ پن ) پر اسطرح اثر انداز نہ ہوں جس طرح کسی نگینہ کے کندہ حروف پر اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں ۔ روزہ بعینہ اسی کا نام ہے یعنی ملکیت ( فرشتہ پن) کی خصوصیات کو حاصل کرنا اور بہیمیت (حیوانیت ) کے تقاضوں کو ترک کردینا اور یہی رمضان المبارک کا مقصود ہے ۔
( حجۃ اللہ البالغۃ ۔ ابواب الصوم )