لوجہاد کے نام پر قانون سازی

   

بی جے پی حکومت کیا واقعی مسلمانوں سے خوف زدہ ہے ؟ اس کو حکمرانی کے فرائض کی انجام دہی سے زیادہ ہندوستانی معاشرہ کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے میں دلچسپی نظر آرہی ہے ۔ لوجہاد کے خلاف قانون سازی اور ایک منتخب کابینہ کا دستوری اصولوں کے ساتھ کھلواڑ کیا معنی رکھتا ہے ۔ اترپردیش سے لے کر ملک کی کئی ریاستوں میں بی جے پی کی حکمرانی ہے ۔ ان حکومتوں نے جو فیصلے کیے ہیں اس پر آج کئی قانونی ماہرین نے سوال اٹھائے ہیں ۔ مسودہ قانون پر شدید تنقیدیں بھی ہورہی ہیں ۔ ان ماہرین قانون کا استدلال ہے کہ کسی بھی دستوری زاویہ سے یا قانونی بنیاد سے ’لوجہاد ‘ کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ۔ دستور کے آرٹیکل 21 میں ایک شخص کو اس کی مرضی کا مذہب اختیار کرنے اور مرضی سے شادی کرنے کی ضمانت دی گئی ہے ۔ یو پی کابینہ نے لو جہاد کے خلاف جو سخت قانون منظور کیا ہے وہ ایک مذاق ہے ۔ قانون کا غلط مطلب اخذ کیا گیا ہے جب کہ اترپردیش کی ہی ایک عدالت نے اہم فیصلے میں کہا ہے کہ ہندوستان کے آئین کے مطابق کسی بھی شخص کو اپنی پسند کی شادی کرنے اور مذہب اختیار کرنے کا حق حاصل ہے ۔ سلامت انصاری نے پرینکا کھر وار نامی لڑکی سے 19 اگست 2019 کو شادی کی تھی اس شادی پر اعتراضات کرنے والوں کا منہ بند کرنے کے لیے سلامت انصاری نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جہاں سے انہیں انصاف حاصل ہوا ۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے واضح کردیا ہے کہ کسی بھی فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت کا عدالت کو حق حاصل نہیں ہے تو پھر ایک حکومت اپنی طاقت کے بل پر من مانی کرنے اور قانون سازی کا قدم اٹھاتی ہے تو اس پر اعتراضات سامنے آنا ضروری ہیں ۔ یو پی کی آدتیہ ناتھ یوگی حکومت ہو یا کرناٹک ، آسام ، ہریانہ ، مدھیہ پردیش کی حکومتیں تمام نے اپنے مخالف مسلمان نظریہ کے ساتھ قانون سازی کرتے ہوئے درپردہ خوف کا بھی اظہار کیا ہے ۔ چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ نے تو اپنے ساتھی چیف منسٹروں سے قدم آگے بڑھ کر ’’ وارننگ ‘‘ بھی جاری کی ہے اور کہا کہ جو لوگ ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کریں گے تو ان کا خاتمہ کردیا جائے گا ۔ ایک چیف منسٹر کا اس طرح دھمکی آمیز بیان اور کھلے طور پر خاتمہ کرنے کی وارننگ خود خلاف قانون ہے ۔ اترپردیش کی کابینہ کا آرڈیننس بین مذاہب کی شادیوں کو روکنے کے لیے ہے توپھر دستور میں دئیے گئے حق کو سلب کرتے ہوئے یہ حکومت آئین کے مغائر کام کرے گی اسی طرح وہ خود کو غیر قانونی حکومت کہلائے گی ۔ دستور کے آرٹیکل 25 میں تو ضمیر کی آزادی اور اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کا حق دیا گیا ہے ۔ دو شادی شدہ افراد کے درمیان ازدواجی رشتہ کو جائز سمجھا جاتا ہے اور یہی ایک فرد کی بنیادی آزادی کا حصہ ہے ۔

اترپردیش اور مرکز کی بی جے پی حکومت کو عوام کا خط اعتماد حاصل ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہندوستانی عوام کے دستوری حقوق کو ہی سلب کرنے میں اپنی حکمرانی کا سارا زور لگادے محبت اور شادی کے رشتہ کو بھی بین مذاہب کے تنازعہ میں الجھا کر یہ حکومتیں ہندوستانی معاشرہ کے ساتھ زیادتی کررہی ہیں ۔ بی جے پی یا اس ملک کے فرقہ پرستوں کو یہ خوف ہے کہ ہندو لڑکیاں ، مسلم لڑکوں سے شادی کرتے ہوئے مذہبی تبدیلی کے رجحان کو فروغ دے رہی ہیں ۔ اس طرح کے پروپگنڈہ سے ہندوستانی معاشرہ کو نفرت اور فرقہ پرستانہ کشیدگی کی کھائی میں ڈھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ایک خاص مقصد کے تحت ہی بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں نے قانون سازی تیز کردی ہے جو آگے چل کر خود ہندو سماج کے لیے کاری ضرب ثابت ہوں گے ۔ لو یا محبت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن حکومت نے محبت یا لو کو بھی مذہب سے جوڑ کر اپنی گہری سازش کو بروے کار لایا ہے ۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے جہاں ایک طرف ایک مسلم لڑکے کی ہندو لڑکی سے شادی کو درست قرار دیا ہے اور اس شادی کو ایک فرد کی ذاتی زندگی جینے کا حق بتایا ہے تو اس فیصلے کی روشنی میں بی جے پی حکمران والی ریاستوں کو اپنے منظورہ قوانین پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہندوستانی معاشرہ لو اور جہاد کے غلط تصور سے بچ سکے اور نفرت و دشمنی کو بڑھاوا دینے والوں کو شکست ہوجائے ۔ حکومت کو اپنی حکمرانی کے فرائض کی انجام دہی میں تعصب پسندی اور تنگ نظری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے ۔ دستور ہند کا تقاضہ یہی ہے کہ ہندوستان کا ہر شہری اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے ۔۔