لوک سبھا انتخابات کے قریب آتے ہی ملک بھر میں مخالف مسلم نفرت انگیز تقریروں میں اضافہ

,

   

سال2023میں درج نفرت انگیز جملہ تقریروں میں 43فیصد کے قریب بی جے پی اقتدار والی ریاستوں مہارشٹرا‘ اترپردیش اور مدھیہ پردیش سے درج ہوئی ہیں


گوشہ محل کے رکن اسمبلی ٹی راجہ سنگھ نے 25فبروری کو میرا روڈ ممبئی میں ایک ریالی کی قیادت کی جس کو دائیں بازوساکال ہندو سماج نے منعقد کیاتھا۔

بھگوا ہجوم کے گھیرے اور پولیس کے بھاری بندوست کے درمیان سنگھ نے اپنی تقریباًم ایک گھنٹہ طویل تقریر میں ’اکھنڈ بھارت‘ کی تشکیل کے لئے ہندو اتحاد کی اہمیت پر زوردیا۔ اس نے جہاد‘ مذہبی تبدیلی‘ کے خلاف جدوجہد پر بھی بات کی اور مغلوں کے خلاف چھترا پتی شیواجی کی مزاحمت کو بھی یاد کیا۔

ملعون رکن اسمبلی نے کہاکہ ”جب تک میں زندہ ہوں میں اپنے ملک کی حفاظت کروں گے۔ جب تک میں زندہ ہوں میں اپنے مذہب پر چلوں گا۔اگر ”لوجہاد“ کا میرا مذہب پر حملہ ہوگا‘اگر ہماری گائیوں کو کاٹا جائے گا‘میں اپنی لڑائی جاری رکھوں گا“۔

ممبئی ہائی کورٹ کی جانب سے سخت ہدایتوں کے بعد ممبئی میں ملعون راجہ سنگھ کو داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی‘ جس نے اس کو ہدایت دی تھی کہ وہ اشتعال انگیز زبان اور استعمال نہ کرے اور اپنی تقریر کے دوران کسی بھی مذہب کے خلاف توہین آمیز الفاظوں کااستعمال نہ کرے۔

درایں اثناء ایک سینئر افیسر نے انڈین ایکسپریس کو بتایاکہ سنگھ کی تقریر کا جائزہ لیاجارہا ہے اور اگر کوئی خلاف ورزی پائی گئی تو اس کے خلاف کاروائی شروع کی جائیگی۔

مذکورہ افیسر نے کہاکہ ”ہم اس پر قانونی کاروائی کریں گے۔

ابتداء میں تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جس کو کرنے سے عدالت نے انہیں منع کیاتھا وہ الفاظ اورفقروں کا استعمال کیاگیا ہے مگر ہم ویڈیو دوبارہ دیکھنے کے بعد فیصلہ کریں گے“۔حال ہی میں میرا روڈ ہندوؤں او رمسلمانوں کے درمیان میں مذہبی کشیدگی کا مرکز بنا ہے۔

دو گروپوں کے درمیان میں 25فبروری کے روز اس وقت تصادم پیدا ہوگیا جب ہندوتوا کارکن اشتعال انگیز او رنسل کشی پر مشتمل نعرے لگاتے ہوئے مسلم اکثریت والی ایک رہائشی سوسائٹی میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔

چار نابالغ سمیت 19لوگوں کو گرفتار کیاگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایف ائی آر میں کسی بھی ہندو کانام نہیں ہے۔


نفرت انگیزتقریروں میں اگست نومبر2023میں اضافہ
واشنگٹن ڈی سی نژاد ریسرچ گروپ انڈیا ہیٹ لیاب(ائی ایچ ایل) کی جانب سے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی گئی جس میں ملک بھر کی 18ریاستوں اور 3یونین ٹریٹریوں میں 2023اگست او رنومبر کے درمیان میں 668نفرت انگیز تقریروں کو دستاویز کیاگیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 2023میں ہر دو نفرت انگیز تقریروں کے واقعات درج کئے گئے ہیں۔ جبکہ 75فیصد نفرت انگیزتقریروں کو بی جے پی کی زیر قیادت ریاستوں سے درج کیاگیا ہے۔

رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ یہ رحجان اگست او رنومبر2023کے درمیان عروج پر تھا جب چار ریاستوں تلنگانہ‘ راجستھان‘ چھتیس گڑھ اورمدھیہ پردیش میں اسمبلی انتخابات تھے۔

رپورٹ کے بموجب مہارشٹرا میں نفرت انگیز تقریروں کے 118واقعات پیش ائے ہیں جو 2023میں کسی بھی ریاست کے مقابلے سب سے زیادہ ہیں۔ اس کے بعد اترپردیش میں (104) اور مدھیہ پردیش میں (65) نفرت انگیزتقریریں انجام پائی ہیں۔

ان تمام تینوں ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔

اس میں کہاگیاہے کہ 2023میں جملہ نفرت انگیزتقریریں کا درج تناسب 43فیصد ہے۔

اس کے علاوہ مسلمانوں کے خلا ف راست تشدد اور مسلمانوں کا سماجی او معاشی بائیکاٹ کا راست اعلان سمیت تقریریں 77فیصد پر مشتمل ہیں۔


دس بڑی ریاستیں جہاں پر سب سے زیادہ نفرت انگیز تقریروں درج کی گئی ہیں وہ درجہ ذیل ہیں


مہارشٹرا (118)۔ بی جے پی حکومت


اترپردیش (104)۔ بی جے پی حکومت


مدھیہ پردیش (65)۔ بی جے پی حکومت


راجستھان(64)۔ بی جے پی حکومت


ہریانہ (48)۔ بی جے پی حکومت


اتراکھنڈ(41)۔ بی جے پی حکومت


کرناٹک (40) بی جے پی کی سابقہ حکومت۔ کانگریس نے2023انتخابات کے بعد ریاست کی ذمہ داری سنبھائی


دہلی(37)۔ یونین ٹریٹری
گجرات(34)۔ بی جے پی کی حکومت‘ بہار(18)۔ پچھلے ماہ تک کانگریس کے ساتھ ملکر جنتا دل سکیولرنے حکومت چلائی۔سال2023میں نو ریاستوں کرناٹک‘تریپورہ‘ میگھا لیہ‘ ناگالینڈ‘ میزورم (2023کے پہلے مرحلے میں یہاں پر انتخابات ہوئے) اس کے بعد تلنگانہ‘ راجستھان‘ چھتیس گڑھ او رمدھیہ پردیش (2023کے دوسرے مرحلے میں) انتخابات عمل میں ائے۔

یہاں پر دوبڑی سیاسی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان میں اقتدار کا تبادلہ عمل میں۔و ہیں کانگریس نے کرناٹک میں بی جے پی کو اقتدار سے بیدخل کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیا وہیں کانگریس کی سابق حکمرانی والی ریاستوں چھتیس گڑھ اور راجستھان پر اپنا قبضہ جمالیا۔ اس کے علاوہ بی جے پی مدھیہ پردیش میں دوبارہ اپنا اقتدار برقرار رکھا۔


چھوٹی ریاستیں اب ہاٹ اسپاٹس بن گئے
رپورٹ میں چھوٹی ریاستوں کے متعلق بات کی گئی ہے‘ جو بی جے پی کے اقتدار میں دوبارہ ہیں‘ وہاں پر اسلام فوبیک ماحول میں اضافہ ہوا ہے۔

ریاستیں جیسے اتراکھنڈ او رہریانہ میں حال ہی میں فرقہ وارانہ تصادم پیش ائے جس کی وجہہ سے اموات او ر مسلمانو ں کے مکانات منہدم کرنے کے واقعات پیش ائے۔

اگست 2023میں ہریانہ کے نوح میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جس کے نتیجے میں سات اموات اور 80سے زائد زخمی ہوئے وہیں اتراکھنڈ کے ہلدوانی ضلع میں جہاں پر حال ہی میں ہندو ا ور مسلمانوں کے درمیان میں تصادم دیکھاگیا جس کے نتیجے میں پانچ مسلمان ہلاک ہوئے ہیں۔

اس آفت کے بعد بلڈور کروائیں انجام دی گئیں ضلع انتظامیہ نے غیر مجازتعمیرات کے نام پر مسلمانوں کے مکانات کومنہدم کردیا۔


پارلیمنٹ میں نفرت انگیز تقریر
ہندوستان کی پارلیمنٹ میں 2023ستمبر22کے روز اسلام فوبیک حملے ایک منتخب رکن پارلیمنٹ پر ہوئے جس کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہے او ریہ حملے کسی اور نہ نہیں بلکہ ایک بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے کئے ہیں۔

ایک بحث کے دوران بی جے پی ایم پی رمیش بیدہوری نے بھوجن سماج پارٹی (بی ایس پی)کنور دانش علی کو ایک ”د ہشت گرد“ اور ”دلال“ کے علاوہ دیگر ریمارکس کے ساتھ مخاطب کیا۔رامیش کو پارلیمنٹ میں کہتے سنا گیا کہ”یہ ملا دہشت گردہے‘ باہر پھینکو اس ملے کو“۔

اس انتہائی قابل اعتراض ریمارکس پر بی جے پی لیڈر ہرش وردھن جو مرکزی وزیر صحت بھی ہیں کو قہقہہ لگاتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔


حالانکہ یونین ڈیفنس منسٹر راجناتھ سنگھ نے اس پر شرمندگی کا اظہار کیا‘ ایسا لگ رہا ہے کہ برسراقتدار پارٹی نے آسانی کے ساتھ اس واقعہ کو فراموش کردی ہے اور بیدھوری کو ”انعام“ دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے راجستھان کے ٹونک حلقہ کا انتخابات سے پانچ دن بعد انچارج بنادیاہے۔


نفرت انگیز تقریر کے عنصر
جملہ 668نفرت انگیز واقعات کا 63فیصد کی دستاویزی اسلام فوبیک سازشوں پر تھیوری پر مشتمل ہے۔

مذکورہ سازشی تھیوریوں کو ہندوتوا تنظیم جیسے بجرنگ دل‘وشواہندو پریشد(وی ایچ پی)اور آر ایس ایس جو بی جے پی کے نظریاتی ساتھی ہیں کی طرف سے انجام دی گئی ہے


لوجہاد۔ ایک خیال کے مسلمان مرد ہندوعورتوں کوشادی کا لالچ دیتے ہیں اور انہیں زبردستی اسلام قبول کراتے ہیں


لینڈ جہاد۔ ایک خیال کے مسلمان تمام عوامی مقامات حاصل کرتے ہیں مکانات او رعبادت گاہوں کی جگہ کی تعمیر کے لئے


معاشی جہاد۔ ایک خیال کے یہ مسلمان ملک کی معیشت پر ہلال صند یافتہ مصنوعات کی فروخت کے ذریعہ قبضہ کررہے ہیں


آبادی جہاد۔ ایک خیال کے مسلمان زیادہ دنیا بھر میں زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں تاکہ اکثریت بن جائیں


پھر یہاں پر دیگر عنصربھی ہیں جیسے ”تھوک جہاد‘یو پی ایس سی جہاد‘ کے علاوہ ”کرونا جہاد“۔ یہ تمام سازشیں مسلمانوں کو بدنام کرنے کی تھیوریوں پر مشتمل ہیں۔