ماں کی تعظیم و تکریم

   

نفیسہ خان
کئی برسوں سے وہ چپ چاپ اپنے خول میں بے جان و بے نام سا بند تھا اشرف المخلوقات سے لیکر چرند، پرند، کیڑے، مکوڑے، جراثیم تک کے لئے روئے زمین پر نمودار ہونے اور وجود میں آنے کے لئے کچھ آپسی تعلق ۔ کچھ اصول و وقت متعین کردیا گیا ہے کہ قطرہ تولید و بیضہ تولید کا اتحاد ایک جاندار کی پیدائش کے ضامن ہوتے ہیں۔ تخمی خلیوں میں اپنی وراثت کے واضح اجزا موجود ہوتے ہیں اس لئے جب کسی بدخصلت شرابی کبابی باپ دادا کی اولاد بھی ان ہی عادتوں کے ساتھ پروان چڑھتی ہے تو لوگ بطور گالی کہتے ہیں کہ اس کا نطفہ ہی خراب ہے اسی طرح کورونا خود نہیں جانتا ہوگا کہ اس کی پرورش کسی مادہ کی کوکھ میں ہوئی یا کسی لیباریٹری میں برسوں کی عرق ریزی و تجربات کے شیطان نما انسان بدنام زمانہ سائنسدانوں کی زہریلی اور حرام جانوروں و جانداروں کے خون سے کشید کئے گئے مادوں سے اس کی تخلیق کی ہے اور اپنے ناپاک منصوبوں میں کامیاب ہوکر اسے ایک خول میں سیل بند کردیا گیا۔ اس کا کیمیائی ہولناک وجود اپنے وحشت ناک ارادوں کی تکمیل کے لئے اپنی دولت و حکمرانی کی ہوس کے حصول کے لئے سب کی نظروں سے پوشیدہ رکھ دیا گیا اور جب ترقی یافتہ ممالک میں یہ احساس بڑھنے لگاکہ سوپر پاور کے مقابلے میں ان کا مقام دوسرے ممالک کے مقابلے میں گھٹ رہا ہے تو کیمیائی جنگ کا ایک چھوٹا سا تجربہ کرنے کی ٹھان لی اور اس کو وقت مقررہ پر عملی جامہ پہنا دیا گیا۔ اسے خوبصورت سا نام کورونا بھی دیدیا گیا حالانکہ کورونا کے معنی رحمدلی کے ہوتے ہیں لیکن اس موذی وائرس نے لاکھوں زندگیوں کو موت کے گھاٹ پہونچا دیا نہ جنگ نہ خون خرابہ بس گھر و بستیاں اجڑ گئیں۔ پر اسرار خاموشی چوطرف پھیلی ہوئی ہے ایک ہو کا عالم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دن کی روشنی پر بھی تارایکی مسلط ہوگئی ہے۔ عجیب افسردگی پورے ماحول پر چھائی ہوئی ہے۔ اچانک ظہور پذیر ہونے والی کورونا کی جان لیوا بیماری سے ہزاروں لاکھوں لاشوں کے انبار لگ گئے ، لاک ڈاون نے چرند گاہ تک پھیلی خاموشی کا سنگین طلسم پھیلا رکھا ہے۔ رات کی تاریکی تنہائی، سکوت، سناٹا ایسا لگتا ہے جیسے کائنات نے سانس لینا بند کردیا ہو۔ صبح صادق کے ساتھ رات کے سناٹوں کا خاتمہ اور زندگی کی چہل پہل شروع ہونے کی بجائے اب افکار و پریشانیوں کا احساس گھیرلیتا ہے کہ دوروٹی کا حصول کیسے کیا جائے؟ کبھی خدا کی نعمتیں ہوا پانی عذاب الٰہی بن کر گاوں شہر اور زندگیوں کو تہس نہس کردیا کرتے تھے برسوں پہلے چند بیماریاں جیسے پلیگ، چیچک، ہیضے کا قہر نازل ہوتا تھا لیکن اس طرح ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھنے والا وائرس کبھی دیکھا نہ سنا۔ شاید اس سے پہلے ایسی افتاد سارے عالم پر نہ پڑی ہوگی۔ یہ سارے فتنے شاید اسی ایک شخص کی ایما پر ہو رہے ہیں جسے آپ دجال کہہ لیجئے یا انسان کے بھیس میں چھپا کوئی ابلیس کوئی شیطان کہہ لیں۔ ہمیں معلوم تو ہو کہ ان تکلیف دہ حالات اس دکھ درد کرب و اموات کا ذمہ دار کون ہے۔ موجودہ ماحول کو کیا نام دوں خوف وحشت۔ اداسی۔ درد۔ یاس اندہ الم کرب رنج و مجبوری بیکسی ہم رعایا کی ہے اور تغافل حکمرانوں کا ہے۔ اچھے دنوں کی راہ تکتے تکتے مہینے سالوں میں بدل رہے ہیں لیکن کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ان نامعتبر حکومتوں و حکمرانوں کے وعدوں پر اعتبار بھی اب کسی کو نہیں رہا۔ اپنے گھروں میں محروس افراد پنجروں میں پرکٹے پرندوں کی طرح اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگے ہیں۔ ہمارے رہنماوں اور رہبروں کی مصلحت آمیزی ہیکہ اتنے صبر آزما وقت میں سب کی زبانیں گنگ ہوگئی ہیں۔ وہ جوش و خروش وہ گلہ پھاڑ پھاڑ کر دھاڑ دھاڑ کر تقریروں کا سلسلہ جو الیکشن اور شاہین باغ کے زمانے میں تھا اب فیس بک پر بھی بند ہے۔ یومیہ کام و مزدوری کرنے والے فاقہ زدہ عوام کی آہ و بکا انہیں سنائی نہیں دیتی ۔ سب گونگے، بہرے ہوگئے ہیں کیونکہ سرکاری و اوقافی زمینوں جائیدادوں حتیٰ کہ قبرستانوں پر بھی انہیں کا قبضہ ہے۔

ان کے مدد سے ان کے دواخانے ان کے اسکول، ان کے کالج و یونیورسٹیاں قائم ہیں۔ فیس و ڈونیشن کے نام پر کروڑوں روپیوں کی آمدنی ہے۔ پھر بیرون ملک جاکر مفلوک الحال مسلمانوں کی دہائی دے کر لاکھوں کا چندہ زکوۃ، خیرات کا وصول کرنے کا سلسلہ الگ جاری ہے۔ اسی رقم سے رہائش کے لئے عالیشان بنگلے، فلیٹس، فارم ہاوس، فنکشن ہالس، تعمیر بھی ہوتے ہیں اور تزئین اور آرائش و زیبائش ہوتی ہے۔ ہر روز مختلف لذیذ کھانوں سے دسترخوان سجتے ہیں۔ قیمتی موٹر کاریں ہر سال بدلتی رہتی ہیں۔ اور عیش و آرام کی ہر سہولت میسر ہے۔ تو یہ ان کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل نہیں ہوئی ہیں اگر ایسے رہنماو لیڈر حکومت کے خلاف زبان کھولتے ہیں تو ان کا بھی وہی حشر ہوتا ہے جو یوپی کے مسلم رکن پارلیمنٹ کا ہوا ہے۔ تو بھلا کون غریب غرباء فاقہ زدہ عوام کے لئے اپنی کروڑوں کی ملکیت کو تباہ و تاراج کرکے جیل کی صعوبتیں جھیلنے کی مصیبت برداشت کرنے کی غلطی کرے گا۔

کچھ شریف سیاسی و مسلم رہنما بھی وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے حق میں بولنے کی جسارت کرلیا کرتے تھے۔ پر اب ان کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے کبھی بہ حالت مجبوری بولنا پڑے تو مائیک کے سامنے مسلمانوں کی ڈھارس بندھانے ایسے بے تکے بے معنی جملوں کا استعمال کرتے ہیں جو حالات حاضرہ کی صبر آزما اذیتوں کا تریاق نہیں ہوتے بلکہ یوں لگتا ہے کہ کسی مسخرے کو مائک کے آگے ٹھہراکر دیا گیا ہو یا سرکس کے کسی جوکر کو رنگ میں اتار دیا گیا ہو جو اپنی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے ہنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ عوام اور خصوصاً مسلمانوں کے مسائل اس طرح کی بکواس سے حل نہیں ہوتے۔ ایک قابل ڈاکٹر مرض کی نوعیت جان کر دوا دے تو افاقہ ہوتا ہے ورنہ بیماری و درد اور بڑھ جاتے ہیں۔ ہمارے رہنما و لیڈر آج کل مسلمانوں کے لئے معالج کا نہیں بلکہ رہزن کا کام کررہے ہیں۔ یہ سب اب پہلے جیسے نہیں رہے اب جفاکشوں کا شہر بلکہ ملک بن گیا ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب احسان فراموش، نامعتبر وعدہ شکن ہیں۔ اپنی جائیدادیں، اپنی درس گاہیں، اپنا بینک بیلنس اپنے گھر اپنے بیوی بچوں کے تحفظ کے لئے فکرمند ہیں۔ خصوصاً آج کل لاک ڈاون نے انہیں ایک ایک نوالے کا محتاج کردیا ہے۔ ایسے میں ان کی کسمپرسی و ناساعد حالات میں انہیں صبر و ثابت قدم رہنے کی تلقین کرنا ان پر ظلم ہے۔ ان کی کڑی آزمائش کے وقت صرف تقاریر سے ان کا پیٹ نہیں بھرتا اگر بروقت حکومت اور امیر لوگوں کی جانب سے مدد نہ ملے تو سب سے نفرت اور اپنی بے بسی کے جذبات ان کو غلط راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ گالی گلوج، مار دھاڑ سے گذرکر چوری ڈکیتی اور قتل و غارت گری پر اتر آتے ہیں۔ انسان کی بے راہ روی نہ صرف اس کی بدنامی کا باعث بنتی ہے بلکہ شرپسندی کی طرف راغب کرتی ہے۔ ایسے افراد کی نشان دہی کرکے کالا دھندہ کرنے والے بیوپاری سیاستدان ایسے مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے نوجوانوں کو اپنے ٹولے میں شامل کرکے تخریب کار بنا دیتے ہیں جو چند ہزار روپیوں کی خاطر ہر جرم اور دنگا فساد کروانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ وہ نوجوان نسل ہے جو تعلیم و تہذیب سے بے نیاز ماں باپ کی مالی مشکلات میں اضافہ کا باعث بنے ہوئے تھے ان کے پاس اپنی منزل کا تعین ہے، نہ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی آرزو و جستجویں باقی ہے۔ ہر انسان کا کردار اچھائیوں و برائیوں کے عناصر کو لیکر بنتا ہے۔ ہر دل کے ساتھ ضمیر کی آواز ہوتی ہے، بے لگام نفس کو لگام دینے کے لئے دینی تعلیمات ہوتی ہیں۔ ان پر عمل پیرا ہونے والا آدمی خود اپنی اور دنیا کی نظر میں سرخرو ہوتا ہے۔ ہم نوحہ گربنے کس کا نوحہ پڑھ رہے ہیں اپنے گناہوں اپنی کوتاہیوں اپنے اعمال پر ہمیں شرم کیوں نہیں آتی۔ پچھتاوا کیوں نہیں ہوتا۔ اپنی خطاوں کی معافی مانگو وہ ضرور عفو کرے گا خدا کو اس کی عبادت اس کی نعمتوں کو فراموش کرکے معجزوں کی توقع کرتے ہیں شومئی قسمت کہنے یا تقدیر کی بے بختی کہ ہماری دعائیں رب کے در تک نہ پہونچ پارہی ہیں نہ تاثیر کا احساس ہو رہا ہے۔ دعا کو پھیلے ہاتھ اب فقیر کے کشکول کی طرح خالی ہیں۔ دعاوں کی قبولیت کا سلسلہ گویا بند ہوچکا ہے۔

خود اپنی بدنیتی کے ہاتھوں برے نتائج بھگت رہے ہیں
صداقتوں سے حقیقتوں سے وہی ہے لیکن فراراب بھی
حکومتوں اور ان کے خیر خواہ غیر مسلم افراد کا رویہ مسلمانوں سے بدل چکا ہے موجودہ رائج الوقت برتاو ان کے تحفظ و بقاء کے لئے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ اس کے باوجود اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھ کر اپنے خوابوں کی تعبیر اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہناکر پرفعل وعمل کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہوگا بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں حالانکہ حکومت، قانون، پولیس کی ناانصافیوں ظلم و زیادتی نے ہر ایک کو گھائل کردیا ہے۔ اب دلوں میں سلگتی نفرتوں کی آگ پر سکون ماحول کو ترس رہی ہے۔ زندگیوں میں پاس و حرماں دکھ درد، رنج وغم، بے کسی کے علاوہ کچھ نہیں بچا ہے۔ ملک کی معاشی حالت بدترین مراحل طے کررہی ہے اب کورونا وائرس کی وجہ سے کب ذریعہ معاش چھن جائے کب نوکریاں چلی جائیں کچھ پتہ نہیں۔ نوجوان نسل اپنی چشم ترکی داستانیں کس کو سنائیں۔ ادھر اسلام دشمنی کو چند تنظیموں نے اپنا شیوہ بنالیا ہے۔ اپنے ہم وطن ، ہمسایہ، پڑوسی غیر مسلم لوگوں کے خیالات کے ساتھ ان کی نگاہیں بھی بدل گئی ہیں۔ اکثر جگہ برہم و بیگانہ نگاہوں کے ہم شکار ہوگئے ہیں۔ ان کے انداز اکھڑے اکھڑے سے ہیں۔ وہ تشدد پر اتر آئے ہیں لیکن ہماری آوازیں سننے کے لئے حکمرانوں کے پاس وقت نہیں ہے۔ وہ تو آگ کو اور بھڑکانا چاہتے ہیں ان کا انسانیت کے نام پر بدنما دھبہ ہے ان کا سلوک ان کی عامرانہ گفتگو۔ حکمرانی کا زعم اور زہریلے الفاظ کے تیروں سے زخمی کرنے کی عادت ہر ایک کے دل نفرت، عداوت و سازشوں کا جال بچھائے جا رہی ہے۔ زخمی جذبات و احساسات کی رفوگری کے بجائے ان پر نمک پاشی کی جاتی ہے یہ لیڈروں کا ایذا پرستی کا مشغلہ ہے بے روزگار مسلمانوں اور خصوصاً ہر مذہب کے نوجوانوں میں مایوسی پھیل گئی ہے جس کی وجہ سے وہ ہر معاملے میں انحراف کررہے ہیں۔ معاشرے کی بقا و ترقی کا نہ ہونا ان کی تعلیم و تربیت کی طرف سے عدم توجہ ہے۔ ان میں اصول پسندی کا فقدان ہوگیا ہے۔ بہتر سماج کی تعمیر کے لئے نئی نسل کی اعلیٰ تعلیم۔ بہتر تربیت، صحت مند معاشرے کی بقا کی ضامن ہے۔ ہندوستان میں آپسی اختلافات نہ انسانیت کے لئے فائدہ مند ہیں نہ مسلمانوں کی بھلائی و بہتری کے لئے کارگر ہیں۔ پیہم جسمانی و ذہنی اذیت شخصیت کو کچل کر رکھ دیتی ہے کورونا وائرس کا خوف جس طرح کئی لوگوں کو جسمانی و ذہنی طور پر مفلوج کررہا ہے۔ ہم لاک ڈاون میں اپنے آپ کو ناکردہ جرم کے سزایافتہ قیدی محسوس کررہے ہیں۔ اس کے باوجود جینے کی چاہ باقی ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے مرنا بھی نہیں چاہتے۔ عمر دوام خضر کو مبارک ہمیں باقی ماندہ زندگی کو بھرپور گذارنے کی تمنا ہے۔ یا اللہ ہماری غلطیوں کو درگذر کر اور ساری دنیا کی مخلوق کو اس عذاب سے محفوظ رکھ آمین ثمہ آمین۔