مختصر سی رہگزر

   

حسنیٰ صدیقی

اے ایمان والوں ہم انسانوں کے بڑے بڑے گناہ بھی ہمارے رب کی مغفرت سے بڑے نہیں ہوتے ہیں، بس ہمارا اللہ پر یقین نہیں ہوتا ہے ۔ اللہ پر مکمل یقین وہ رزق ہے جو توبہ استغفار، ذکر الٰہی اور ہر وقت اللہ کے خوف سے میسر ہوتا ہے کیونکہ زندگی ایک ایسی نرالی مشقتوں سے بھری کھیتی ہے جس کا بیج ہم زمین کے اوپر لگاتے ہیں مگر اس کا پھل ہمیں زمین کے نیچے ملتا ہے ۔ اچھا یا برا یہ تو زمین پر گزارا ہوا وقت بتاتا ہے کہ ہم نے اپنے لئے کیا محفوظ کیاہے ۔ اس دلکش رنگین مگر بلا کی سنگین دنیا میں انسان ( آدم علیہ السلام کو اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے) کو سزا کے لئے بھیجا گیا تھا ۔ اس لئے اس دنیا میں ہر انسان اللہ کی سخت آزمائش میں ہے ۔ اس کا ہر عمل اُسے جنت کےبہت قریب یابہت دورکرتارہتاہےاس وعدہ سے جس کا بہت مختصر سا راستہ دنیا سے ہوکر گزر رہا ہے اور یہی حقیقت ہے کہ تمام احتیاط انسان کو اس راستہ پر ہی کرنی ہے۔ نفس کے ہاتھوں جکڑا ہوا انسان ، خواہشات کے سمندروں میں ڈوبا ہوا انسان، حسداور جلن میں سلگتا ہوا انسان، غیرشرعی رسموں سے لپٹا اور فرقوں میں بٹا ہوا انسان، شیطانوں کے ہجوم سے گھرا ہوا انسان جس پر لازم ہیں فرض کی ادائیگی اور اللہ کے احکامات کو بجا لانا اس تاکید کے ساتھ کہ ہر وہ چیز دنیا ہے جو تمہیں اللہ سے غافل کرتی ہے بیحد کمزور انسان، مجبور لاچار انسان دنیا میں وہ راستہ گزار رہا ہوتا ہے جسے زندگی کہتے ہیں ۔ وہ زندگی جو کبھی بھی کسی کو بادشاہ نہیں بننے دیتی ، سب کچھ دیکر بھی فقیر ہی رکھتی ہے۔ کچھ نہ کچھ کے لئے محروم تو کسی نہ کسی چیز کیلئے ترستا ہوا ۔ پھر یہی حسرتیں محرومیاں اور خواہشات انسان کواصل مقصد سے ہٹا کراِن راستوں پر ڈھکیل دیتی ہے جس کا آخراُس جگہ پرہوتاہے جو مومنوں کیلئے نہیں بنائی گئی ہے مگرفطری طور سے کمزور انسان اس دنیا میں دوسرے انسان سے اپنا تعلق خلوص کی وجہ سے نہیں بلکہ ضرورت کی وجہ سے رکھتا ہے۔ افسوس آج آپسی تعلقات محبت اور اپنائیت کی قلت جھیل رہے ہیں اُکتائے ہوےلہجےاورفریبی توقعات جذباتوں کے ساتھ ساتھ رشتوں کوبھی تارتار کررہے ہیں ۔ ایک دوسرے کیلئے ہمدردی اور اپنائیت کے احساسات کا مرجانا ہی وہ خسارہ ہے جو پوری قوم کے لگاتار زوال کا سبب بنتاجا رہاہے ۔ ہم یہ بھولتے ہی جارہے ہیں کہ ہم اُس پیغمبر کےاُمتی ہیں جس نے پوری قوم کو ایک جسم کے مانندبتایا تھا ،ہر رشتہ سے اُوپر کلمہ طیبہ کے رشتہ کو ہی سب سےبلند بتایا تھااور قوم کو یکجہتی کےساتھ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے اس مختصر سے راستہ پر چلتے رہنے کو ہی جنت کی طرف جانے کا کامیاب راستہ بتایا تھا ۔ کیونکہ ہم سب کا حساب کتاب قبر سے لیکر حشر تک کااور جنت سے لیکر دوزخ تک کا اس رہگزر کا ہی ہےجسے صراط مستقیم کہتے ہیں جو تمام انبیا کا بھی راستہ رہا ہے جو ہمارے رسول ﷺ کا بھی راستہ رہا ہے اور قیامت تک ہر ایک کے لئے ایک ہی راستہ رہیگا۔