مدھیہ پردیش ‘ انتظامیہ بھی فرقے پرست

   

سدا کہتے رہے تجھ کو رفیق اے زندگی اپنا
مگر ہمراہ اس کے موت کو بھی مان لیتے ہیں
ویسے تو ہندوستان بھر میں ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں جنونی عناصر نے کوئی کسر باقی نہیںر کھی ہے۔ ہر گوشے سے فرقہ واریت کا زہر سماج میں گھولا جا رہا ہے اور قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ مختلف تنظیمیںاس کام کیلئے سرگرم عمل ہیںاور کسی بھی موقع کو ضائع کئے بغیر فرقہ واریت کا زہر گھولا جا رہا ہے ۔ اس کام میں ملک کے زر خرید تلوے چاٹنے والے میڈیا نے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ پر بھی اس کے اثرات مرتب ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ گذشتہ دنوں بی جے پی کے اقتدار والی ریاست مدھیہ پردیش میں ایک واقعہ پیش آیا جو انتہائی قابل مذمت ہے ۔ مدھیہ پردیش میں دو مسلم نوجوانوںکو گائے ذبح کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔ ذبیحہ گاؤ پر پابندی ہونے کی وجہ سے اگر ان نوجوانوںنے گائے ذبح کی ہے تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جانی چاہئے تھی ۔ پولیس کا کام محض ان نوجوانوںکو گرفتا رکرنا ‘مقدمات درج کرنا اور پھر انہیں عدالت میںپیش کردینا تھا ۔ تاہم پولیس ایسا لگتا ہے کہ اپنے طور پر بھی ایسے کام کر رہی ہے جو خلاف قانون ہیںاور ان کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ پولیس کا کام قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا اور قانون شکنی کرنے والوںکے خلاف کارروائی کرنا ہے لیکن پولیس خود قانون کے خلاف کام کر رہی ہے ۔ پولیس نے دو نوجوانو ں کو گرفتار کرتے ہوئے انہیں ایک کیلومیٹر تک پریڈ کروائی اور ان سے انتہائی شرانگیز اور متنازعہ نعرے لگوائے ۔ ان سے گائے ہماری ماتا ہے اور پولیس ہمارا باپ ہے کے نعرے لگائے گئے ۔ یہ مدھیہ پردیش پولیس کی انتہائی شرمناک حرکت ہے اور اس کے خلاف خود قانونی کارروائی کئے جانے کی گنجائش ہے ۔ ایسی حرکتوں کی جمہوری اور دستوری ملک میں کوئی گنجائش نہیںہونی چاہئے اور ایسا کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتے ہوئے انصاف کیا جانا چاہئے ۔ پولیس کو اس بات کا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ نوجوانوں سے اس طرح کے نعرے لگوائے اور ان کی پریڈ کروائے ۔ یہ پولیس کی متعصب سوچ اور ذہنیت کی عکاسی کرنے والا واقعہ ہے ۔
ویسے تو جس جس ریاست میں بی جے پی برسر اقتدار ہے وہاں انتظامیہ خود بھی فرقہ وارانہ سوچ کے ساتھ کام کر رہا ہے ۔ مسلمانوں کو نشانہ بنانے میں ان ریاستوں میں کوئی کسر باقی نہیںر کھی جا رہی ہے ۔ معمولی سی باتوں پر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ان کی جائیداد و املاک کو تباہ کیا جا رہا ہے ۔ سنگین مقدمات میں نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں قید کیا جا رہا ہے اور ان کی ضمانتوں کو بھی رکوانے کی جدوجہد کی جا رہی ہے ۔ اترپردیش کی مثال سارے ملک کے سامنے ہے ۔ اسی طرح مدھیہ پردیش میں بھی انتظامیہ کی جانب سے قانون اور دستور کی بالادستی کو یقینی بنانے کی بجائے ایسا لگتا ہے کہ آر ایس ایس کے ایجنڈہ پر عمل کیا جا رہا ہے اور آر ایس ایس کے اشاروں پر کام کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کو جمہوری اور دستوری طور پر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن مدھیہ پردیش میں بھی جو واقعات پیش آ رہے ہیں ان سے ایسا لگتا ہے کہ وہاں کا انتظامیہ بھی جمہوریت اور دستوری بالادستی کی بجائے فرقہ واریت کے ایجنڈہ کو آگے بڑھاتے ہوئے مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے پر اتر آیا ہے ۔ اس طرح کے واقعات پر فوری قابو پانے کی ضرورت ہے اور ایسی حرکتیں کرنے والوں کے خلاف عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہوئے انہیں بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی ضرورت ہے ۔ ایسی حرکتوں کو برداشت نہیں کیا جاسکتا جو قانون اور دستور کے مغائر ہوں ۔ خاص طور پر انتظامیہ اور سرکاری مشنری کو ایسی حرکتوں سے باز آجانا چاہئے ۔
نوجوانوں کی جانب سے اگر کوئی گناہ کیا گیا ہے تو اس کا فیصلہ کرنے اور انہیںسزائیں دلانے کیلئے ملک میں عدالتیں موجود ہیں ۔ پولیس ان عدالتوں میں موثر پیروی کرتے ہوئے انہیں سزائیںدلا سکتی ہے اور یہی اسکا کام بھی ہے لیکن پولیس خود فریق بنتے ہوئے قانون کی دھجیاںاڑانے پر اتر آئی ہے اور یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے ۔ مرکزی حکومت اور دیگر ذمہ دار گوشوں کا اس کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے اور ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے عملی اقدامات کئے جانے چاہئیں تاکہ مستقبل میںایسے واقعات کا اعادہ ہونے نہ پائے اور ایسا کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزائیںدلائی جاسکیں۔