نئی دہلی: سپریم کورٹ نے پیر (16 ڈسمبر) کے روز کرناٹک حکومت سے سوال کیا کہ کیا کسی مسجد میں ‘‘جے شری رام’’ کا نعرہ لگانا جرم ہے؟ عدالت نے یہ بھی دریافت کیا کہ مسجد میں مبینہ طور پر نعرے بازی کرنے والے ملزمان کی شناخت کس طرح کی گئی؟ جسٹس پنکج متھل اور جسٹس سندیپ مہتا کی بنچ نے مزید پوچھا کہ کیا ملزمان کی شناخت کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج یا کسی دیگر ثبوت کی جانچ کی گئی تھی؟ سپریم کورٹ، کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل پر سماعت کر رہی تھی۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ مسجد کے اندر ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگانا ایسا جرم نہیں ہے جو مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہو۔ سپریم کورٹ نے اپیل کنندہ کے وکیل سے یہ سوالات کیے اور ہدایت دی کہ ریاستی حکومت کو بھی شکایت کی ایک کاپی فراہم کی جائے۔ کرناٹک حکومت نے ابھی تک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کی ہے۔ 13 ستمبر کو کرناٹک ہائی کورٹ نے ان دو افراد کے خلاف فوجداری کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا تھا، جن پر الزام تھا کہ وہ ایک مسجد میں داخل ہوکر ‘‘جے شری رام’’ کا نعرہ لگا رہے تھے اور دوسروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ جنوبی کرناٹک ضلع کی پولیس نے ان دونوں افراد کو گزشتہ سال ایک مقامی مسجد میں نعرے بازی کے الزامات کے تحت نامزد کیا تھا۔ ان دونوں پر الزام تھا کہ انہوں نے مسجد میں داخل ہوکر جے شری رام کے نعرے لگائے اور مقامی مسلمانوں کو دھمکی دی کہ وہ انہیں سکون سے رہنے نہیں دیں گے۔ اس کے بعد مقامی پولیس نے ان کے خلاف تعزیراتِ ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 295 اے (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی نیت سے عمل)، دفعہ 447 (غیر قانونی داخلہ)، اور دفعہ 506 (مجرمانہ دھمکی) کے تحت کیس درج کیا تھا۔ بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق دونوں افراد نے اپنے خلاف درج مجرمانہ کیس کو ختم کرنے کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ 13 ستمبر کو جسٹس ایم ناگ پرسنا کی سربراہی میں ہائی کورٹ کی بنچ نے انہیں ریلیف دیتے ہوئے کیس کو کالعدم قرار دے دیا۔