مسجد ۔ مندر تنازعات پر موہن بھاگوت کا بیان خوش آئند

   

باتوں کو عمل میں تبدیل کرنے پر زور ۔ نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
ممبئی : مختلف سیاسی قائدین ، خاص طور پر اپوزیشن نے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے بیان کا خیرمقدم کیا جس میں موہن بھاگوت نے کئی نئے مندر، مسجد تنازعات کے سر اٹھانے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ایودھیا رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ اس طرح کے مسائل کو اٹھا کرہندوؤں کے لیڈر بن سکتے ہیں اور کہا کہ اسے جاری نہیں رکھا جا سکتا۔تاہم، مسلم قائدین اور علماء نے سنگھ اور اس سے منسلک تنظیموں کی کارروائیوں پر شکوک کا اظہار کرکے سوال اٹھایا کہ سماج میں تفرقہ پیدا کرنے والے آر ایس ایس نظریے کی پیروی کرنے والوں پر کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ہے ۔ کانگریس لیڈر و سابق ایم پی حسین دلوائی نے بھاگوت کے ریمارکس کی ستائش کی ، لیکن انہوں نے حالیہ سماجی تناؤ میں آر ایس ایس کردار پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہاکہ موہن بھاگوت کا بیان درست ہے ، لیکن مسلمانوں کے خلاف تشدد، ہجومی تشدد، گھروں کو مسمار کرنے اور دیگر کارروائیوں کا کیا ہوگا؟ یہ حرکتیں آر ایس ایس نظریے کی پیرو کاروں کی طرف سے کی جاتی ہیں، انہیں روکنے کچھ کیوں نہیں کیا جاتا؟ ۔دلوائی نے بھاگوت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی تنظیم کے اندر تقسیم پسند طاقتوں کے خلاف مضبوط موقف اختیار کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں بھاگوت کا احترام کرتا ہوں، آر ایس ایس کا اثر و رسوخ ہے اور وہ ایسے عناصر کو نکال سکتا ہے ، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ بھاگوت کو واضح کرنا چاہیے کہ ہندتوا اصل میں کس کی نمائندگی کرتا ہے – کیا یہ بقائے باہم سے متعلق ہے ، یا مسلمانوں کے خلاف ہے ؟۔ مہاراشٹرا کانگریس کے کارگزار صدر و سابق وزیر نسیم خان نے بھی بھاگوت کے بیان کا خیرمقدم کیا لیکن اس پر عمل درآمد پر شک ظاہر کیا۔ انہوں نے کہاکہ اس طرح کے ریمارکس سننا اچھا لگتا ہے ، لیکن ان کے اثرات کیا ہیں ؟ ہندوستان آج بڑے تنازعات کا سامنا کر رہا ہے ۔ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ، ہجومی تشدد جاری ہے ، اور یہاں تک کہ آئین پر حملہ ہو رہا ہے ۔خان نے کہا کہ آر ایس ایس اتحاد کی بات کرتی ہے لیکن تقسیم پر عمل کرتی ہے ، اور یہ لوگ سنگھ پریوار سے تعلق رکھتے ہیں ۔ نامور قانون داں اور سابق ایم پی مجید میمن نے بھاگوت کے بیان کی تعریف کی، تاہم ایسے معاملات پر عملی طور پر خاطیوں کو سزا دلانے میں عدم دلچسپی اور کبھی کبھار روکاوٹ پیدا ہونے پر مایوسی کا اظہار کیا۔ میمن نے کہاکہ بھاگوت اکثر اچھے بیانات دیتے ہیں، لیکن ان پر شاذ و نادر ہی عمل ہوتا ہے ۔ انہیں آر ایس ایس کے مسائل کو حل کرنا چاہیے اور تشہیر کے بجائے حقیقی تبدیلی کو یقینی بنانا چاہیے ۔میمن نے حکومت کے مسلمانوں کے ساتھ سلوک پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کا ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس کا نعرہ سازش لگتا ہے ۔ مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوز چلایا جاتاہے ، مساجد کو مسمار کیا جاتا ہے ، اور دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے ۔ بھاگوت کے الفاظ کو عمل میں بدلنے کی ضرورت ہے ۔آل انڈیا علماء بورڈ کے صدر نعیم حسنی نے بھی ریمارکس کا خیرمقدم کیا اور بی جے پی لیڈروں سے اس کی پیروی کی اپیل کی۔