مشرق وسطیٰ میں امریکہ ۔ چین مسابقت

   

سیاست فیچر
امریکہ اور چین زندگی کے ہر شعبہ میں مسابقت کرتے ہیں اور ان دونوں ملکوں کی مسابقت نے دنیا کو بھی مختلف گروپوں میں تقسیم کردیا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ چین ان ملکوں میں اپنے قدم جماسکے جہاں پہلے ہی سے اس (امریکہ) کا عمل دخل زیادہ ہے۔ اس معاملے میں اب یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ آیا ’’مشرق وسطیٰ‘‘ ،امریکہ اور چین کے درمیان ایک فلیش پوائنٹ ثابت ہوگا۔ امریکی عہدۂ صدارت پر فائز ہونے کے 18 ماہ بعد صدر جوبائیڈن نے جاریہ ماہ کے اوائل میں مشرق وسطیٰ کا اپنا پہلا دورہ کیا جو کبھی ان کے ملک امریکہ کی خارجہ پالیسی کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے دورہ میں یقینا چین کے کردار پر بھی تبادلہ خیال ہوا ہوگا کیونکہ دورۂ مشرق وسطیٰ پر روانگی سے قبل جوبائیڈن نے لکھا کہ چین کو مسابقت میں پچھاڑنے کیلئے علاقہ میں اپنے موقف کو ممکنہ حد تک مستحکم بنانے کی بھرپور کوشش کی جانی چاہئے۔ خود مغربی میڈیا کے مطابق امریکی خارجہ پالیسی بنانے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ عالمی سطح پر امریکہ۔ چین مسابقت کا فلیش پوائنٹ ہے، چونکہ اس علاقہ میں چین اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے اور امریکی قانون سازوں کو اس کا احساس بھی ہوچکا ہے۔ انہیں اندازہ ہے کہ تعاون و اشتراک کے روایتی شعبوں جیسے آئیل اینڈ گیاس کے ساتھ ساتھ ہیلتھ سلک روڈ جیسے نئے شعبہ میں بھی چین نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس نے کورونا وائرس کی عالمی وباء کے دوران ضرورت مند ملکوں کو نگہداشت صحت کی سہولتیں فراہم کیں۔ اس طرح دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت (چین) نے اپنی معاشی سرگرمیوں کو وسعت دیتے ہوئے یہ بتا دیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے اور امریکہ پر برتری قائم کرنے کیلئے آیا ہے، واپس جانے کیلئے نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور چین کے درمیان زبردست مسابقت ہے اور وہاں چین کو امریکہ کا متبادل سمجھا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب، چین کیلئے خام تیل کا سال 2021ء میں سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک رہا۔ چین نے سعودی عرب سے 87.58 ملین ٹن خام تیل درآمد کیا۔ اسی طرح دونوں ملکوں میں قربت بڑھی ہے۔ چین کے جنرل ایڈمنسٹریشن آف کسٹمر ، نے یہ اعداد و شمار پیش کئے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ یوان میں تیل کی معاملت سودے بازی سے بنیادی طور پر چین کا فائدہ ہے اور اسے اپنی کرنسی کے اُتار چڑھاؤ سے مرتب ہونے والے اثرات سے تحفظ حاصل ہوگا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین، سعودی عرب کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اکثر تجزیہ نگاروں کے خیال میں مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور چین کی مسابقت صرف توانائی کے شعبہ میں ہی نہیں ہوگی بلکہ وہ دونوں ملک زندگی کے ہر شعبہ میں مسابقت کریں گے جس میں شعبہ دفاع بھی شامل ہے۔ چین نے امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں ایک نظریاتی مسابقت میں بھی پھنسادیا ہے۔ جبکہ امریکہ، چین میں مسلم ایغور آبادی کے ساتھ چینی حکومت کے ناروا سلوک پر اظہار افسوس کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ اسے چین کے ایغور مسلمانوں کی حالت زار پر بہت زیادہ تشویش ہے۔ اِسے صرف اور صرف امریکہ کی جانب سے مگرمچھ کے آنسو بہانے کے مترادف سمجھا جارہا ہے۔ اس لئے کہ امریکہ کو اگر ایغور مسلمانوں سے حقیقی ہمدردی ہوتی تو خود کو وہ چین کے خلاف صرف بیانات تک محدود نہیں رکھتا۔ اس کے علاوہ اگر امریکہ کو چین میں مسلمانوں کی حالت زار پر تشویش ہے تو پھر اس نے میانمار میں روہنگیائی مسلمانوں کے قتل عام اور عصمت ریزی کے واقعات پر حکومت میانمار کے خلاف فوجی کارروائی کیوں نہیں کی؟ فلسطین میں اسرائیلی حکومت نہتے فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہی ہے، اس پر وہ خاموش کیوں ہے؟ صرف اپنے مفادات کیلئے ایغور مسلمانوں سے ہمدردی سے مسلم دنیا امریکہ کو اپنا دوست نہیں سمجھ سکتی۔ امریکی ماہرین کے خیال میں چین، سعودی عرب سے تعلقات مستحکم کرتے ہوئے چاہتا ہے کہ صوبہ زنجیانگ میں چین جو کچھ کررہا ہے، اس کے خلاف کوئی بھی ملک بشمول سعودی عرب آواز نہ اٹھائے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی اثرورسوخ کے باوجود چین اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں کامیاب رہا۔ اس نے خود کو صرف علاقہ میں توانائی کے شعبہ تک محدود نہیں رکھا بلکہ ڈیجیٹل، نگہداشت صحت اور رئیل اسٹیٹ کے شعبوں میں بھی خود کو آگے بڑھایا۔ امریکی تجزیہ نگار مزید کہتے ہیں کہ چین اگرچہ مشرق وسطیٰ میں اپنی سرگرمیوں کو وسعت دے رہا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مشرق وسطیٰ کے ملک امریکہ سے دُور ہورہے ہیں۔