مودی ‘ مندر اور بلڈوزر

   

سب کچھ تو لُٹ چکا ہے زمانے میں دوستو
اک دردِ دل کی بس یہ عطا میرے ساتھ ہے
لوک سبھا انتخابات 2024 کی مہم انتہائی نچلی سطح تک پہونچ گئی ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ اس کے ذمہ دار ملک کے وزیر اعظم خود ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران لگاتار اختلافی اور نزاعی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے عوام میںخوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے سماج میں نفرت کو بڑھاوا دیا گیا ۔ خواتین کے گلے سے منگل سوتر چھین لئے جانے کا خوف دلایا گیا اور زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو ب لواسطہ نشانہ بنایا گیا انہیںدرانداز قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا گیا ۔ انتخابات کے سات مراحل میں چار مراحل کی تکمیل ہوگئی ہے اور پانچویں کیلئے مہم جاری ہے ۔ ہر مرحلہ کیلئے بی جے پی اور خود وزیر اعظم نے انتہائی افسوسناک رویہ اختیار کرتے ہوئے صرف اور صرف منفی سوچ کے ساتھ مہم میں حصہ لیا اور ایسے ریمارکس کئے جو وزیر اعظم کو بالکل ذیب نہیںدیتے ۔ اب تو انتخابی مہم کے دوران عوام کو اکسانے اور بھڑکانے جیسی کوشش بھی کی گئی ہے اور خود وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ اگر کانگریس اور سماجوادی پارٹی کو مرکز میں اقتدار مل جاتا ہے تو رام مندر پر بلڈوزر چلا دیا جائیگا ۔ اس طرح وزیر اعظم نے ملک کے عوام کو اکسانے اور بھڑکانے کی کوشش کی ہے ۔ عوام کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ ملک کا الیکشن کمیشن اپنے وجود کا احساس دلانے تک کو تیار نہیں ہے اور اس طرح کی سنگین خلاف ورزیوں پر بھی خاموشی اختیار کی جا رہی ہے اور اگر کچھ کارروائی ہو رہی ہے تو کسی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے بری الذمہ ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ الیکشن کمیشن میں ملک کے وزیر اعظم کو راست نوٹس جاری کرنے کی ہمت نہیں ہے اسی لئے اس سے قبل جب ان کی تقاریر کے تعلق سے شکایت کی گئی تو مودی کی بجائے بی جے پی صدر جے پی نڈا کو نوٹس جاری کی گئی ۔ یہ در اصل ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کرنے کی کوشش تھی ۔ اس کے ذریعہ کمیشن نے یہ واضح پیام دیدیا ہے کہ وہ بھی شائد وزیر اعظم سے خوفزدہ ہے اور انہیں راست نوٹس جاری کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ الیکشن کمیشن کا یہ رویہ بھی ملک کی انتخابی مہم کے گرتے معیارات کیلئے ذمہ دار ہے ۔
اترپردیش جیسی اہمیت کی حامل ریاست میں وزیر اعظم لگاتار اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ مسلسل عوامی جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ بی جے پی لیڈر نہیں بلکہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ انہیں اپنی سرکاری ذمہ داریوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جسے انہوں نے گذشتہ چند ماہ کے عرصہ میں بالکل بھی فراموش کردیا ہے ۔ اس کے علاوہ جس طرح کی زبان اور لب و لہجہ وہ استعمال کرنے لگے ہیں وہ انتہائی افسوسناک ہے اور ہندوستان جیسے ملک کے جلیل القدر عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہوتے ہوئے ایسی زبان اور لب و لہجہ کے استعمال سے گریز کرنا چاہئے تھا ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی اور بی جے پی کے دوسرے قائدین کیلئے ملک میں اقتدار کا حصول ہی سب سے زیادہ اہمیت کا حامل رہ گیا ہے ۔ نہ انتخابی قوانین کی انہیںفکر ہے اور نہ ہی سماجی ہم آہنگی کی فکر ہے ۔ وزیر اعظم کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک میں اتحاد و یکجہتی کے فروغ کیلئے کام کریں۔ عوام کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی کوشش کی جائے ۔ سماج میںدوریوں کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ ایک دوسرے کے تعلق سے اگر کچھ غلط فہمیاں ہیںتو انہیں دور کرنے کیلئے پہل کی جائے ۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مضبوط اور مستحکم کرنے عملی اقدامات کئے جائیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی کو اس کی کوئی فکر ہی نہیں ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر لگاتار تیسری معیاد کیلئے وزارت عظمی کا عہدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے وہ قوانین اور ضوابط کی صریح خلاف ورزی کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔
جس طرح سے انہوں نے ملک کے عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے وہ ملک کے مفاد میں نہیں کہی جاسکتی ۔ رام مندر کو انتخابی موضوع بناتے ہوئے بی جے پی اور وزیر اعظم نے بارہا یہ ثبوت دیدیا ہے کہ ان کے پاس عوام سے رجوع ہونے کوئی مثبت سوچ نہیں ہے اور نہ ہی وہ عوام سے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کے موقف میں ہیں۔ وہ دس سال کی کارکردگی پر عوام کے سوالات کے جواب دینے کو تیار نہیں ہیںاور نہ ہی اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالوں کا کہیں تذکرہ کرنے کے موقف میں ہیں۔ عوام کو مشتعل کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش پر الیکشن کمیشن کو نوٹ لینا چاہئے ۔ قانون کے مطابق کارروائی کی جانی چاہئے کیونکہ ہندوستان میں کوئی چاہے کتنے ہی بڑے عہدے پر فائز کیوں نہ ہو وہ قانون سے ماوراء نہیںہوسکتا ۔
بیرونی ممالک اور ہندوستانی طلبا
ہندوستان سے تعلق رکھنے والے طلبا دنیا کے مختلف ممالک میں اعلی تعلیم کیلئے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی کئی ممالک کے طلبا زیر تعلیم ہیں اور یہاں ان طلبا کیلئے انتہائی سازگار اور خوشگوار ماحول دستیاب ہوتا ہے ۔ حالیہ وقتوں میں دیکھا گیا ہے کہ امریکہ ‘ کنیڈا اور دوسرے ممالک میںہندوستانی طلبا پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ کچھ طلبا ان حملوں میں اپنی جان بھی گنوا بیٹھے ہیں اور کچھ طلبا تعلیم تر ک کرتے ہوئے اپنے ملک واپس ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اب کرغزستان میںبھی بین الاقوامی طلبا کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ان میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے طلبا بھی شامل ہیں۔ بیرونی ممالک میں حصول تعلیم کیلئے سرگرم طلبا پر اس طرح کے حملے افسوسناک ہیں۔ مختلف ممالک میںحملوں کیلئے حالانکہ وجوہات مختلف ہیں لیکن ہمارے نوجوان ان سے متاثر ہو رہے ہیں اور ان کی جانیں بھی ضائع ہو رہی ہیں۔ یہ صورتحال ہندوستان کے طلبا اور نوجوانوں کیلئے افسوسناک اور تشویشناک ہے ۔ مرکزی حکومت کو اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ جن ممالک میں اس طرح کے حملے ہو رہے ہیں اور ہندوستانی طلبا کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہاں کی حکومتوں کے ساتھ یہ مسئلہ رجوع کرتے ہوئے اس کا کوئی سدباب کرنا چاہئے ۔ ہم اپنے نوجوانوں کی جانیںضائع ہونے کا مسلسل موقع نہیں دے سکتے ۔ یہ ہمارے ملک کا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ ان کے تعلق سے خاموشی بھی سودمند ثابت نہیں ہوگی ۔ بیرونی ممالک میں طلبا برادری کو سازگار اور پرا من ماحول فراہم کرنے کیلئے حکومت کو حرکت میںآنے کی ضرورت ہے ۔