تسنیم فردوس (نئی دہلی)
مولا علیؑ کو کون نہیں جانتا مسلمان تو مسلمان ہیں غیر مسلم بھی آپؓ کی بہادری آپؓ کی شجاعت کا دم بھرتے نظر آتے ہیں۔ مولا علیؑ وہ ہیں کہ جس پے خود شجاعت ناز کرتی ہے ۔ آپؓ کی پیدائش دنیا کی بہترین جگہ یعنی کعبہ شریف میں ہوئی ،مولا علیؑ کی تعلیم و تربیت محمدمصطفیٰؐ کے زیرِ سایہ ہوئی ۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا میں علم کا شہر ہوں علیؑ اسکا دروازہ ہیں۔ حضرت عمر فرماتے ہیں میں ایک مسئلے میں کچھ الجھن کا شکار تھا اگر علیؑ مجھے صحیح فیصلے کا مشورہ نہ دیتے تو میں ہلاک هوجاتا۔ آپؓ اعلانیہ کہا کرتے تھے لوگو مجھ سے جو پوچھنا چاہتے هو پوچھ لو ۔
جب حضور اکرم ﷺ نے تبلیغ کا کام شروع کیا تو سب سے پہلے دعوت اپنے خاندان والوں کو دی تب حضرتِ علیؑ محض سات سال کے تھے اس دعوت میں کسی نے آپؐ کا ساتھ نہیں دیا ، حضرتِ علیؑ فرماتے ہیں تب میں سب سے پیچھے بیٹھا ہوا کھجور کھا رہا تھا جب میں نے دیکھا کہ آپؐ کا ساتھ کوئی نہیں دے رہا میں نے دونوں ہاتھ بلند کئے اور کہا ’’حضور! علی ہر صورت میں آپؐ کا مددگار رہے گا آپؐ کا محافظ رہے گا آپؐ میدان میں نکلیں علی آپ کی ڈھال بنے گا‘‘ ۔
بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے مولا علیؑ ہیں۔ اسلام قبول کرنے سے لے کر تمام غزوات میں سے لے کر کوفہ تک مولا علیؑ اپنے مقصد میں لگے رہے ۔ آپؓ کے جیسا جنگجو پورے عرب میں کوئی نہ تھا ، مرحب جیسے وحشی کو تلوار کے ایک وار سے دو ٹکڑوں میں بانٹ ڈالا۔خیبر کے موقع پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا صبح میں اسلام کا جھنڈا جس کے ہاتھ میں دوں گا وہ اسلام کا علمبردار ہوگا۔ تاریخ میں سب نے دیکھا خیبر کے فتح ہونے کے دن اسلام کا جھنڈا مولا علیؑ کے ہاتھ میں تھا ۔ فتح خیبر کا سہرا بھی مولا علیؑ کے سر پے ہے۔
آپؓ کی زندگی نہایت سادہ ہے ، آپؓ مزدوری کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی کے باغ میں کام کیا اُجرت میں دو کلو کھجور ملے آپؓ نے کھجور کندھے پے رکھ کر چلنے لگے تو یہودی کہنے لگا علیؑ تھوڑا سا کام اور کر لو اضافی اجرت ملےگی تو آپؓ نے فرمایا آج کے لئے دو کلو کافی ہیں تو وہ شخص کہنے لگا کل کیا کرو گے تو آپؓ نے بہت ہی خوبصورت انداز میں جواب دیا جو اللّٰہ کل کا سورج دکھائے گا رزق بھی وہی دے گا۔ایک جگہ اور فرماتے ہیں ایک شخص نے مولا سے کہا آپ جائز دولت تو جمع کر لیں جائز دولت پر تو گناہ نہیں ہے ۔ مولا کا یہ جواب تاریخ کے پنوں میں آج بھی روشن مہتاب کی طرح جگمگا رہا ہے: ’’آپ نے فرمایا جائز دولت پر حساب ہے اور ناجائز پر سزا اور علیؑ اس مشکل سے خود کو بچا رہا ہے‘‘۔
آپؓ کی شادی کائنات کی سب سے بہترین خاتون حضرتِ فاطمہ زھراءؓ سے ہوئی جو جنت کی عورتوں کی سردار ہیں ۔ حضرتِ فاطمہؓ کے لئے عرب کے امیر ترین لوگوں کے رشتے آئے لیکن آپؐ نے کوئی جواب نہیں دیا آپؐ نے فرمایا مجھے فاطمہؓ کے رشتے کے سلسلے میں اللّٰہ کے حکم کا انتظار ہے۔ مولا علیؑ فرماتے ہیں میں باغ میں کام کرنے میں مصروف تھا کے میرے پاس حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ اور حضرتِ عثمانؓ تشریف لائے اور کہا کے علی جاؤ اور رسولِؐپاک سے بی بی فاطمہؓ کا ہاتھ مانگ لو۔ حضرت علیؑ کہتے ہیں میں نے کہا میرے پاس نہ دولت ہے نہ گھر ہے حضور مجھے رشتہ کیوں دیں گے لیکن تین یاروں نے حضرت علیؑ کو تیار کیا اور حضور کی بارگاہ میں پیش کیا۔
حضرت علیؑ بیان فرماتے ہیں کہ اللّٰہ کے رسولؐ نے مجھ سے تین مرتبہ پوچھا کہو علیؑ کیسے آئے هو لیکن میں کچھ بول نہ سکا تو خود ہی رسولِؐ پاک نے فریاما فاطمہؓ کے لئے آئے هو تو میں نے کہا جی یا رسولؐ اللّٰہ۔
تو حضورؐ نے فرمایا ’’انشاءاللّٰہ‘‘
اور میں وہاں سے اٹھ آیا مجھے لگا حضور نے رشتہ قبول نہیں کیا۔
جیسے ہی باہر آیا تو تین یار موجود تھے پوچھنے لگے ہاں هو گئی تو آپ نے فرمایا نہیں حضور نے ہاں نہیں کی ۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں ہم نے کہا علی ملاقات کے پورے احوال دو۔ جب مولا نے فرمایا کہ حضور نے انشاءاللّٰہ کہا ہے تو تین یاروں نے کہا :
’’ علیؑ تجھے فاطمہؓ مبارک اللّٰہ کی چاہ یہی ہے‘‘۔
اکیس سال کی عمر میں آپؓ کی شادی حضرتِ فاطمہؓ زھراء سے ہوئی آپؓ دامادِ نبیؐ بنے۔ حضرت علی ؑکو دنیا اسد اللہ اور حیدرِ کرار کے نام سے جانتی ہے ، آپؓ جیسے ہی میدان میں جاتے دشمن اِدھر اُدھر بھاگنے لگتے کسی کی تلوار میں اتنا دم نہیں تھا کہ وہ اللّه کے شیر کا مقابلہ کرے۔ ۳۵ ہجری میں مسلمانوں نے جب خلافت اسلامی کا منصب مولا علیؑ کے سامنے پیش کیا تو آپؓ نے پہلے انکار کیا لیکن جب مسلمانوں کااصرار بہت بڑھ گیا تو آپ نے اسے منظور کیا
آپ کے دور خلافت میں جمل، صفین اور نہروان کی خون ریز جنگیں ہوئیں جن میں مولا علی نے اسد اللہ یعنی اللہ کا شیر ہونے کا ثبوت دیا۔ مولا علیؑ پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھا لیتے تھے جو روپیہ بیت المال میں آتا تھا اسے تمام مستحقین پر برابر سے تقسیم کرتے تھے یہاں تک کہ آپؓ کے سگے بھائی عقیلؓ نے یہ چاہا کہ کچھ مال انہیں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ مل جائے مگر آپؓ نے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو خیر یہ بھی ہو سکتا تھا مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے کسی اپنے عزیز کو دوسروں سے زیادہ دوں ۔ انتہا ہے کہ اگر کبھی بیت المال میں شب کے وقت حساب وکتاب میں مصروف ہوئے اور کوئی ملاقات کے لیے آکر غیر متعلق باتیں کرنے لگا تو آپ نے چراغ بجھا دیا کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں سرف نہیں ہونا چاہیے ۔ آپ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جو کچھ بیت المال میں آئے وہ جلد حق داروں تک پہنچ جائے ، آپ اسلامی خزانے میں مال کاجمع رکھنا پسند نہیں فرماتے تھے۔