مگر مجھ کو لوٹا دو وہ بچپن کا ساون!

   

آج کل کے بچے بھی شاید کل اپنی دولت اور شہرت دینے کیلئے تیار ہوں، مگر اس کے بدلے خریدیں گے کیا؟ بچپن کی کونسی یاد؟ نجانے جگجیت سنگھ کی یہ غزل کبھی ان کی آنکھوں میں بھی نمی لا سکے گی یا نہیں۔ جگجیت سنگھ جب بھی ٹی وی پرگنگنا رہے ہوتے، ریموٹ ابو کے ہاتھ سے نکل کر وہیں زمین پر ڈھیر ہوجاتا تھا اور جب جب غزل کے الفاظ یہ ہوتے:
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو وہ بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
سماں وہیں بندھ جاتا تھا، وقت ٹھہر جاتا تھا اور ہر دفعہ اس غزل پر امی کو کچن سے بھاگ کر ٹی وی کے سامنے بیٹھے دیکھا۔ تھوڑی دیر میں دونوں ہی جگجیت کے ساتھ ساتھ گنگنا رہے ہوتے۔ بچپن میں ان کا یہ انہماک سمجھ نہیں آتا تھا۔ پھر جب اپنا بچپن ماضی کا قصہ ہوا تو جگجیت کی اس غزل کے سامعین اور ناظرین میں میں بھی شامل ہوگئی۔ اب امی، ابو اور میں، ہم تینوں اشعار میں چھپا اپنابچپن ٹٹولنے لگے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر ایک کو غزل کے ہر مصرعے میں اپنے بچپن کی یاد آتی تھی۔ ایسا لگتا ہے غزل اسی کیلئے لکھی گئی ہے۔ بچپن اور بارش، ان دونوں کے امتزاج میں ہی زندگی کے سنہرے دنوں کی یادیں پوشیدہ ہیں۔ بچپن میں جب موسم باراں کی آمد ہوتی تو ایک عجب کیفیت ہوتی۔ یہ نئے تعلیمی سال کی دستک جیسی تھی ہمارے لئے، کتابیں کھولنے کی آہٹ تھی، ساتھیوں سے ملنے کی خوشی تھی، نئی کلاس دیکھنے کی جستجو تھی۔ اسکول سے واپسی پر بارش میں نہانے کا انتظار ختم ہونے کو ہوتا۔ کاغذ کی ناؤ بنا کر پانی میں کشتی چلانے کی پوری تیاری رہتی۔ وہیں دوسری جانب موسم گرما کی طویل چھٹیاں رخصت ہونے کے در پر ہوتیں۔ بے فکری کے دن وداع ہونے کو ہوتے۔ اپنے معمول کے شب و روز پر آنے کا وقت ہو جاتا۔ بیک وقت دو مختلف کیفیتیں ہوتی تھیں۔ کبھی خوشی حاوی ہوتی تو کبھی غم۔ کبھی اسکول یاد آتا تو کبھی چھٹیاں یاد آتیں۔ اور یوں بارش کا موسم شروع ہوتا تھا۔ کلاس روم میں بیٹھے ہم باہر بارش کے ماحول سے بہت لطف اندوز ہوتے تھے۔ باہر گرتا ہوا بارش کا پانی اور کلاس روم میں بہتا علم کا سمندر، آسمان سے گرتی ہوئی بارش کی ہر بوند چمکتے ہوئے موتی کی مانند لگتی تھی۔ ایسا لگتا تھا نایاب موتی آسمان سے زمین پر گر رہے ہوں۔ جیسے ہی پانی کے قطرے زمین پر گرتے ٹپک ٹپک کی آواز آتی۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہر بوند کے ساتھ آسمان سے فرشتے زمین پر آرہے ہوں۔ دوپہر میں کھانے کی چھٹی کے دوران ہم کلاس کے باہر گراؤنڈ میں آ کر چھوٹی چھوٹی کاغذ کی کشتیاں بناتے اور درختوں کی جڑوں میں جمع شدہ پانی پر تیرنے کیلئے چھوڑ دیتے اور پھر انہیں تیرتا ہوا دیکھ کر خوشی سے تالی بجاتے۔ اسکول کی چھٹی کے بعددوستوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے گھر کیلئے روانہ ہوتے اور ایک دوسرے کے اُوپر پانی اُچھالتے ہوئے اپنے اپنے گھروں پر پہنچ جاتے۔ راستے سے چلتے ہوئے چھتری کھولنا اور بند کرنا تیز ہوا کی وجہ سے بڑا لطف اندوز ماحول لگتا تھا۔ پچپن میں بھیگنے کے بہانے تلاش کرتے تھے۔ کبھی کبھی ہم جان بوجھ کر بھیگ جایا کرتے تھے۔ زیادہ بارش کی وجہ سے پانی ندیوں سے راستوں تک آجاتا، اس دوران ہم دو باتوں سے خوش ہوتے تھے، ایک تو اسکول کی چھٹی اور دوسرا زیادہ پانی دیکھنے والا منظر۔ وہ یادیں آسمان سے گرتا ہوا پانی اور کا لے بادل جو بارش کے بعد قوس قزح کے رنگوں میں تبدیل ہو جاتے تھے۔ پہاڑوں سے گرتا ہوا آبشار اور آسمان تک پہنچتا ہوا کہرا، بھیگے ہوئے راستے اور پانی سے لبالب ندی اور کنوئیں، گھروں سے نکلتا ہوا دھواں جو گرم چولہے کے بنائے ہوئے کھانوں کا ہوتا تھا۔ پانی میں تیرتی ہوئی ننھی مچھلیاں اور کاغذ کی بنی ہماری کشتیاں۔ رنگ برنگے چھتریاں لیے وہ بچپن کی بارش آج بھی دل و دماغ کو تازگی بخشتی ہیں۔ پچپن کی پہلی بارش، وہ بھی کیا دن تھے۔ جب شدید گرمی سے مزاحمت کے بعد ہم پہلی بارش سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ہر مو سم اپنے آپ میں اور اپنے فوائد میں منفرد ہے اور ضروری بھی ہے۔ البتہ برسات کا موسم اپنے ساتھ دل لبھانے والی بہار لئے آتا ہے۔ پہلی بارش آنے سے پہلے بادلوں کی گرج کانوں میں پڑتے ہی ہم اپنے گھروں سے باہر بارش میں بھیگنے جاتے تھے۔ سہیلیاں ہم کو بلانے آتیں اور ہم اور ہماری سہیلیاں والدہ سے اجازت طلب کرتے ہوئے اپنے نکات پیش کرتے تھے۔ البتہ کوئی بھی نقطہ کام نہ آتا اور آخر میں ہمارے قیمتی آنسو بہا کر ہی بھیگنے کی اجازت مل پاتی تھی۔ عجیب بات ہے پچپن میں بھیگنے کے بہانے تلاش کرتے تھے اور اب بھیگنے سے بچتے ہیں۔ بارش کی بوندیں جیسے ہی گرنا شروع ہوتیں ہم بچے بڑوں کی ڈانٹ کی پروا کئے بغیر باہر میدان میں آجاتے، بارش میں نہاتے اور کاغذ کی ناؤ پانی میں چلاتے۔ بارش کے بعد دھلے دھلے پیڑ پودے دل کو بے حد لبھاتے۔ بارش کے بعد دھنک کا نظر آنا بے حد حیرت انگیز منظر ہوتا۔ مٹی سے اُٹھنے والی مہک دل و دماغ کو معطر کردیتی۔ چائے اور پکوان بارش کے لطف کو دوبالا کردیتے۔ مجھے بچپن سے لے کر آج تک بارش کی بوندوں سے اُٹھنے والی مٹی کی مہک، چائے، پکوڑے اور گلگلے بے حد پسند ہیں۔ بچپن کی پہلی بارش کی یادیں آج بھی دل کو خوش کرتی ہیں۔ یہ بچپن کی معصومیت، خوشیاں اور بے فکر لمحات آج کی مصروف زندگی میں بے حد یاد آتے ہیں۔ آج بھی جب بارش ہوتی ہے، تو وہی خوشبو، وہی منظر، وہی احساسات ذہن میں تازہ ہو جاتے ہیں اور ہم ایک لمحے کیلئے پھر سے بچے بن جاتے ہیں۔ بچپن کی پہلی بارش کی میٹھی یادیں بچے ہوں یا بوڑھے بارش کا موسم ہر عمر کے لوگوں کو پسند ہوتا ہے۔ بارش کا موسم اچھا لگتا ہے۔ بچپن کی پہلی بارش کی بہت میٹھی یادیں ہیں۔ جب بھی موسم کی پہلی بارش ہوتی تو ہم سب بھائی بہن گھر کے باہر دوڑ کرجاتے اور جھوم جھوم کر بارش میں بھیگتے تھے۔ ہم بچے اپنے اسکول بیگ میں کاپی کے صفحہ کو پھاڑ کر کاغذ کی ناؤ (کشتی ) بناتے اور گھرکے باہر جو پانی جمع ہوتا اس میں اپنی اپنی ناؤ بہاتے اور مقابلہ کرتے۔ بارش کے موسم میں مٹی کی بھینی بھینی خوشبو ہر کسی کو پسند آتی ہے۔ بچپن میں سبھی بچے اپنے بھائی بہن ساتھ مل کر بارش کے موسم میں خوب کھیلتے اور مزے کرتے تھے۔ آج بچپن کی پہلی بارش کی یادیں صرف یادیں بن کر رہ گئی ہیں۔ سچ کہتے ہیں لوگ کہ بچپن کے دن سنہرے ہوتے ہیں۔ جو کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔